اٹلی میں 81واں وینس فلمی میلہ پورے جوش و خروش سے جاری ہے، جس میں سعودی عرب بھی حصہ لے کر عالمی فلمی منظرنامے میں اپنی موجودگی کو مضبوط کر رہا ہے۔
اس سال کے شیڈول میں ریڈ سی فلم فیسٹیول کی حمایت یافتہ چار فلمیں شامل ہیں، جو بین الاقوامی سینیما میں سعودی عرب کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو ظاہر کرتی ہیں۔
یہ رفتار ’نورا‘ کی تاریخی کامیابی کے بعد سامنے آئی، جو کین فلمی میلے کے Un Certain Regard زمرے کے لیے منتخب ہونے والی پہلی سعودی فلم ہے۔
یہ ایک اہم تبدیلی کا اشارہ ہے کہ کس طرح سعودی عرب عالمی سینیما کو شکل دے کر اپنی نمائندگی کر رہا ہے۔
ایک ایسی دنیا میں جہاں میڈیا ہماری سوچ سمجھ کی تشکیل کرتا ہے، فلمیں صرف تفریح فراہم نہیں کرتیں بلکہ تصورات کو چیلنج کرتی ہیں، مکالمے کو جنم دیتی ہیں اور مختلف ثقافتوں اور تجربات کی گہری تفہیم کو فروغ دیتی ہیں۔
جہاں ایک طرف روایتی مغربی بیانیے اکثر سعودی ثقافت اور معاشرے کو دقیانوسی تصورات تک محدود کر دیتے ہیں، وہیں ایک نئی لہر کے فلم ساز ایک تازہ زاویۂ نظر پیش کر رہے ہیں، جو سرخیوں کے پیچھے کی حقیقتوں کو اجاگر کرتے ہوئے مملکت کے بھرپور تنوع کو اجاگر کر رہا ہے۔
2018 میں سعودی عرب میں دوبارہ سینیما گھر کھلنے کے بعد سعودی عرب مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کی سب سے بڑی سینیما مارکیٹ بن گیا ہے، اس کی فلمی صنعت خطے کی سب سے متحرک صنعتوں میں سے ایک شمار ہو رہی ہے۔
سعودی وژن 2030 کے تحت سماجی اور ثقافتی تبدیلی کے ایک وسیع تر منصوبے کے حصے کے طور پر خاصی سرمایہ کاری کی گئی ہے، جس نے ایک متحرک فلمی ایکو سسٹم کے قیام کی راہ ہموار کی ہے جو باصلاحیت مصنفوں، ہدایت کاروں اور پروڈیوسروں کے ابھرنے کی حمایت کرتا ہے، اور تیار ہونے والی فلموں کے معیار اور تنوع کو بڑھاتا ہے۔
یہ حمایت مملکت کی سرحدوں سے باہر بھی پھیلتی ہے اور سعودی عرب کو عالمی سینیما میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر پیش کرتی ہے۔
فلم ’نورا‘ کے ہدایت کار توفیق الزیدی ہیں، اور اس کا سکرین پلے سعودی فلم کمیشن کے ڈاؤ فلم مقابلے میں ایک فنڈ ایوارڈ جیتنے کے بعد ریڈ سی فلم فاؤنڈیشن سے پوسٹ پروڈکشن گرانٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
ریڈ سی فاؤنڈیشن نے ڈیولپمنٹ سے لے کر تقسیم کاری تک 250 سے زیادہ منصوبوں میں مدد کی ہے، اور اس سال ریڈ سی فنڈ کے ذریعے ایک کروڑ 40 لاکھ ڈالر کی گرانٹ فراہم کرنے کا منصوبہ پیش کیا گیا ہے۔
وینس میں اس سال ریڈ سی فلم فاؤنڈیشن کی حمایت یافتہ فلموں میں خالد منصور کی ’سی کنگ ہیون فار مسٹر ریمبو‘ اور مہدی برساوی کی ’عائشہ‘ شامل ہیں۔
اگرچہ یہ سعودی فلمیں نہیں، لیکن بینالے میں ان کی شمولیت سعودی عرب کے بڑھتے ہوئے عالمی سینیما کو دوبارہ تشکیل دینے کے کردار کو اجاگر کرتی ہے۔
سرحدوں سے آگے سعودی اثر و رسوخ
درحقیقت خطے کے فلمی میلے سعودی فلموں کی پہنچ کو خطے سے باہر تک وسیع کرنے کے لیے اہم پلیٹ فارم بن گئے ہیں۔
ریڈ سی فیسٹیول میں دکھائی جانے والی فلمیں ناقدین، ناظرین اور کین، ٹورنٹو اور وینس جیسے بڑے میلوں کی توجہ حاصل کرتی ہیں۔
بین الاقوامی ایوارڈز سرکٹ پر سکریننگ یا ایوارڈز جیتنا بین الاقوامی مارکیٹوں میں تقسیم کے لیے بہت اہم ہے۔
سعودی عرب کی خطے بھر کی فلموں کی حمایت اور ساتھ ہی اپنی ابھرتی ہوئی فلمی صنعت، بین الاقوامی سطح پر ایوارڈز سرکٹ پر بڑھتی ہوئی پہچان حاصل کر رہی ہے اور خطے سے باہر مارکیٹوں میں اپنی جگہ بنا رہی ہے۔
ڈارک کامیڈی ’مندوب‘ (نائٹ کوریئر)، جو ریڈ سی فاؤنڈیشن کی ایک اور حمایت یافتہ فلم ہے، اس کی ایک قابل ذکر مثال ہے۔
یہ فلم ٹورنٹو فلم فیسٹیول میں سب سے پہلے فروخت ہونے والی فلموں میں سے ایک تھی، جسے میٹس فلمز اور ایم پی ایم پریمیئم نے یورپی مارکیٹوں میں تقسیم کے لیے منتخب کیا۔
یہ فلم بین الاقوامی سطح پر مقبولیت حاصل کر رہی ہے، اب یہ برطانیہ اور آئرلینڈ کے سینیما گھروں میں دکھائی جا رہی ہے۔
خواہ مملکت کے اندر بنائی گئی ہوں یا بیرون ملک فلموں میں تعاون فراہم کیا گیا ہو، سعودی حمایت یافتہ پروڈکشنز اپنے معاشرے کی پیچیدہ سماجی اور ثقافتی حرکیات کی عکاسی کر کے تصورات کو دوبارہ شکل دے رہی ہیں۔
’مندوب‘ علی الکلثامی کی پہلی فیچر فلم ہے اور یہ ایک کامیڈی اور سماجی تبصرہ ہے۔
اس کی ریاض کے کم نظر آنے والے شہری پہلوؤں کی کھوج سعودی معاشرے کے بارے میں پہلے سے موجود تصورات کو چیلنج کرتی ہے اور سعودی عرب میں زندگی کی پیچیدگیوں کی گہری تفہیم فراہم کرتی ہے۔
مستقبل کا منظرنامہ
سعودی فلموں کی وسیع پیمانے پر تقسیم کاری، خاص طور پر یورپ اور شمالی امریکہ میں، اب بھی ایک چیلنج ہے۔
تاہم جیسے جیسے مزید فلمیں بین الاقوامی سطح پر پہچان حاصل کر رہی ہیں، یہ صورت حال تبدیل ہو سکتی ہے۔
بین الاقوامی فلمی فنانسرز، تقسیم کاروں اور پروڈیوسروں کی خطے کی فلموں میں بڑھتی ہوئی دلچسپی، جیسا کہ ریڈ سی انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں دیکھا گیا، ترقی کی صلاحیت کو ظاہر کرتی ہے۔
یہ فیسٹیول ان لوگوں کے لیے ایک مرکز بن گیا ہے جو مشرق وسطیٰ سے نئے ٹیلنٹس اور کہانیاں تلاش کر رہے ہیں۔
یہ بڑھتی ہوئی دلچسپی ان منفرد نقطہ نظر کی وجہ سے ہے جو پیش کیے جا رہے ہیں نہ کہ ہالی وڈ کے ٹیلنٹ کو راغب کرنے یا پی آر کی وجہ سے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فلمی صنعت کو بڑھانے اور مقامی ہنر کی پرورش کے لیے مسلسل وابستگی خطے میں بننے والی فلموں کی کامیابی اور مانگ میں ایک اہم عنصر ہے۔
اسی طرح، بڑے بین الاقوامی سٹوڈیوز اور سٹریمنگ پلیٹ فارمز کے اخراجات میں کمی صنعت کے رہنماؤں کو مشرقِ وسطیٰ میں تیار کردہ فلموں کی طرف راغب کر رہی ہے۔
نیٹ فلکس، ایمزون پرائم اور ڈزنی پلس جیسے سٹریمنگ پلیٹ فارمز کی رسائی ان فلموں کو دنیا بھر کے لاکھوں لوگوں تک پہنچانے اور تقسیم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے — اور وہ مشرقِ وسطیٰ کے موضوعات پر مبنی مواد کی تلاش میں بھی بڑھتی ہوئی دلچسپی رکھتے ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں پروڈکشن کے اخراجات میں 46.3 فیصد اضافہ ہوا ہے، مقامی پلیٹ فارمز جیسے کہ شاہد وی آئی پی نے اصل مواد کے لیے ہر سال اضافی 100 ملین ڈالر کا عہد کیا ہے۔
یہ ترقی مشرقِ وسطیٰ فلمی صنعت کی بڑھتی ہوئی صلاحیت کو اجاگر کرتی ہے۔
مثال کے طور پر نیٹ فلکس نے اپنے عربی مواد کے کیٹلاگ کو نمایاں طور پر وسعت دی ہے، اور یہ فلمیں اب 190 سے زائد ممالک میں دستیاب ہیں۔
2023 میں نیٹ فلکس کی آمدن 33.7 ارب ڈالر تھی، جس کا 44 فیصد حصہ امریکہ اور کینیڈا سے آیا، جو اس کے بین الاقوامی مارکیٹوں کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔
نیٹ فلکس کی پہلی عربی فلم ’پرفیکٹ سٹرینجرز‘ جلد ہی پلیٹ فارم پر سب سے زیادہ دیکھی جانے والی غیر انگریزی فلموں میں سے ایک بن گئی ہے، جو اپنی ریلیز کے چند ہفتوں میں لاکھوں لوگوں نے دیکھی۔
یہ رجحانات بڑھتی ہوئی رفتار اور اثر و رسوخ کی واضح علامت ہیں۔
فلم کے ذریعے دنیا بھر کے ناظرین خطے کے متنوع ثقافتی منظرناموں اور سماجی حرکیات تک رسائی، تعریف اور تفہیم حاصل کر سکتے ہیں اور پہلے سے کہیں زیادہ، دنیا بھر کے ناظرین خطے کی بھرپور داستانیں اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔
جیسے جیسے فلم ساز ایسی تخلیقات بناتے جا رہے ہیں جو دقیانوسی تصورات کو چیلنج کرتی ہیں اور غور و فکر کو ابھارتی ہیں، سوال یہ ہے کہ ہم بطور عالمی سامعین اور مقامی ثقافتی کے حامی کس طرح سعودی فلم سازوں کی مدد کر سکتے ہیں تاکہ وہ اپنی مستند کہانیوں کو عالمی سطح پر اجاگر کریں؟
بشکریہ عرب نیوز۔ اس تحریر کی مصنفہ العنود النحیت ایس آر ایم جی تھنک میں کمیونیکیشن سٹریٹیجسٹ ہیں، جو ایس آر ایم جی کی تحقیقاتی اور مشاورتی شاخ ہے۔