لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عاصم حفیظ نے چیئرمین نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی تقرری کے خلاف درخواست منظور کرتے ہوئے حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل منیر افسرکی تعیناتی کالعدم قرار دے دی ہے۔
جسٹس عاصم حفیظ نے چیئرمین نادرا کی تقرری کے خلاف درخواست پر محفوظ فیصلہ آج جمعے کو سنایا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عاصم حفیظ نے خاتون شہری اشبا کامران کی درخواست پر 30 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا ہے۔
تحریری فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ ’ایک دلیل یہ دی گئی کہ اس سے پہلے بھی دو حاضر سروس فوجی افسران نادرا میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ماضی میں کیے گئے غلط کاموں کا مطلب یہ نہیں کہ دوبارہ وہ کام کیا جائے، غیر قانونی طور پر کیے گئے کام کوئی قانونی کور نہیں دیا جاسکتا۔‘
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’ایک ہاتھی کو چوہے کے گھر میں نہیں چھپایا جاسکتا، موجودہ چیئرمین نادرا کی تعیناتی کو مزید تحفظ نہیں دیا جاسکتا۔‘
فیصلے میں لکھا گیا کہ یہ سارا معاملہ مئی 2023 کو شروع ہوا جب جنرل (ریٹائرڈ) قمر باجوہ کے خاندان کا ڈیٹا لیک کرنے کے الزام میں تفتیش کا آغاز ہوا۔
جس کے بعد اس وقت کے چیئرمین نادرا طارق ملک نے استعفیٰ دیا تو نگران حکومت نے اسد رضا گیلانی کو قائم مقام چیئرمین تعینات کیا، جولائی 2023 میں نگران حکومت نے نئے چیئرمین نادرا کی تقرری کے لیے اشتہار جاری کیا پھر اچانک وہ اشتہار منظر عام سے غائب ہوگیا۔
فیصلے کے مطابق اسی طرح اچانک نگران حکومت نے نادرا رولز 2020 میں ’رول 7 اے‘ متعارف کرایا جو کہتا ہے کہ ’اگر وفاقی حکومت سمجھے کہ قومی مفاد کا معاملہ ہے تو پھر اسے کسی بھی حاضر سروس فوجی افسر کی گریڈ 21 میں سول ادارے میں خدمات لینے کا اختیار ہوگا۔‘
اس کے بعد اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور داخلہ نے سلیکشن کمیٹی کو تین نام بھجوائے۔ ان تین ناموں میں سے جنرل منیر افسر کو چیئرمین نادرا تعینات کر دیا گیا۔
جسٹس عاصم حفیظ نے فیصلے میں قرار دیا کہ نگران حکومت اور وفاقی حکومت نے نادرا رولز 2020 کے رول کے 7 اے کے تحت تعیناتی کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اس میں کوئی شک نہیں کہ چیئرمین نادرا کی تقرری کے لیے کوئی اشتہار یا اہلیت کا معیار نہیں رکھا گیا۔ نگران حکومت نے تقرری کے لیے خفیہ طور پر من پسند افسران کے ذریعے جائزہ لیا۔ وفاقی حکومت نے بتایا کہ چیئرمین نادرا کی تقرری قومی مفاد میں کی گئی۔‘
فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت نے یہ دیکھنا تھا کہ کیا وفاقی حکومت کو اختیار تھا کہ وہ خفیہ انداز سے تعیناتی کر دے؟
’متعلقہ شق کو بغور پڑھیں تو صاف ظاہر ہے کہ قومی مفاد کی آڑ میں ڈائریکٹ تعیناتی نہیں کی جاسکتی۔‘
فیصلے میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت نے قانون سازی کیے بغیر رول 7 اے کے ذریعے اپنے اختیارات بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ موجودہ حالات میں وفاقی حکومت کی جانب سے کی گئی تعیناتی کو درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔
جسٹس عاصم حفیظ نے فیصلے میں لکھا کہ سرکاری وکیل کو قومی مفاد کے دعوے کو بغور جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ وفاقی حکومت نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی یہ تقرری قومی مفاد میں کی گئی۔
وفاقی حکومت کے وکیل نے بتایا کہ نادرا جیسے ادارے میں سکیورٹی کمپرومائز ہوئی اور بہت سی بے ضابطگیاں سامنے آئیں۔ وکیل نے کچھ اخباری تراشے پیش کیے جس کے مطابق 2.7 ملین شہریوں کا ڈیٹا لیک ہوا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سرکاری وکیل نے اخبار کے علاوہ کوئی متعلقہ دستاویزات نہیں لگائیں۔
فیصلے کے مطابق: ’کیا کوئی بے ضابطگی اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ آپ غیر قانونی طریقے سے تقرری کرلیں؟ ڈیٹا لیک ہونا میرٹ پر تقرریوں کو منسوخ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔‘
عدالت نے فیصلے کی نقل وفاقی کابینہ اور وزارت داخلہ کو بھجوانے کا حکم بھی جاری کر دیا۔
درخواست گزار کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ نگران حکومت نے نادرا قانون میں ترامیم کرکے حاضر سروس آرمی افسر کو تقرر کرنے کی منظوری دی، نگران حکومت مستقل پالیسی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی۔
درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت نادرا ترمیمی رولز کو کالعدم قرار دے اورحاضر سروس فوجی افسر کی بطور چیئرمین نادرا تقرری کالعدم قرار دی جائے۔
نگران وفاقی حکومت نے اکتوبر 2023 میں اس وقت جنرل ہیڈکوارٹز (جی ایچ کیو) میں تعینات آئی جی کمیونیکیشن اینڈ آئی ٹی لیفٹیننٹ جنرل محمد منیر افسر کو نادرا کا چیئرمین مقرر کیا تھا۔