امریکی دباؤ ایران پائپ لائن معاہدہ پورا کرنے میں رکاوٹ: آصف

وزیر دفاع خواجہ آصف سے پیر کو انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان، ایران گیس پائپ لائن پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ پاکستان کی بقا کا معاملہ ہے، ہم 18 ارب ڈالر کہاں سے دیں گے۔‘

وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ایران گیس پائپ لائن معاہدہ سے متعلق کسی اور ملک کو شامل کرتے ہوئے امریکہ کے ساتھ ڈپلومیسی کرنی چاہیے تاکہ وہ ’ہمیں یہ معاہدہ مکمل‘ کرنے دے۔

وزیر دفاع خواجہ آصف سے پیر کو انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان، ایران گیس پائپ لائن پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ پاکستان کی بقا کا معاملہ ہے، ہم 18 ارب ڈالر کہاں سے دیں گے۔‘

ان سے جب پوچھا گیا کہ پاکستان، ایران گیس پائپ لائن معاہدے پر عمل درآمد میں رکاوٹ کیا ہے؟ تو اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’قطعی طور پر عالمی دباؤ ہمیں مجبور کر رہا ہے کہ ہم ایران سے اپنا معاہدہ پورا نہیں کر پا رہے۔‘

اگر پاکستان اس پائپ لائن کے معاہدے کو مکمل نہیں کرتا تو امکان ہے کہ ایران اس کے خلاف 18 ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔

اس حوالے سے وفاقی وزیر دفاع نے کہا کہ ’ہم 18 ارب چھوڑ کر 18 ملین نہیں دے سکتے۔ اس وقت جو ہمارے مالی حالات ہیں اس میں اتنی بڑی رقم ادا کرنا وہ بھی صرف اس لیے کہ امریکہ یا کسی اور کو ناراض نہیں کرنا چاہتے کہ پابندیاں نہ لگ جائیں۔‘

خواجہ آصف نے کہا کہ ’ہمیں اس میں راستہ نکالنا چاہیے، دوسرے ممالک سے کہنا چاہیے کہ وہ امریکہ کو اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ ہمیں ایران سے گیس پائپ لائن معاہدہ مکمل کرنے دے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہندوستان ایران کے ساتھ کاروبار کر رہا ہے، اور بہت سے ملک ایران کے ساتھ کاروبار کر رہے ہیں ان پر کوئی پابندیاں نہیں لگیں لیکن ہمیں بلیک میل کیا جا رہا ہے جو بہت بڑی زیادتی ہے۔‘

’ہمیں اس میں راستہ نکالنا چاہیے دوسروں ممالک سے کہنا چاہیے کہ وہ امریکہ کو اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ ہمیں ایران سے گیس پائپ لائن معاہدہ مکمل کرنے دے۔‘

خواجہ آصف نے مزید کہا کہ ’رواں ماہ وزیراعظم شہباز شریف امریکہ جائیں گے تو انہیں وہاں یہ ضرور بات کرنی چاہیے کہ ہمیں وہ (ایران) عدالت میں لے کر جا رہے ہیں، نقصان کا اندیشہ ہے لہذا ہمیں اجازت دیں تاکہ ہم معاہدہ پورا کریں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایران کے مطابق اس نے گیس پائپ لائن کے اپنے حصے کی تعمیر پر دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے جبکہ پاکستان کی جانب گیس پائپ لائن منصوبے پر عمل درآمد میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے اور ایران اس سلسلے میں  18 ارب ڈالر کے ہرجانے کے لیے پیرس کی ثالثی عدالت سے رجوع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

کیا ایران نے پاکستان کو معاہدے پر عمل نہ کرنے کے سے متعلق آخری نوٹس بھی بھیج دیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ ’ایران نے برادر اسلامی ملک ہونے کی حیثیت سے بہت صبر کیا ہے یہ معاہدہ 2008/9 میں مکمل ہو جانا چاہیے تھا۔

’اس گیس پائپ لائن راہداری نے انڈیا بھی جانا تھا اور ہم نے راہداری سے ٹیکس بھی لینا تھا۔ اب اگر ایران عالمی عدالت جا رہا ہے تو اسے اپنے حقوق کا تحفظ کرنا پڑ رہا ہے اگر وہ نہیں جائیں گے تو قانونی حقوق کمپرومائز ہو جائیں گے۔‘

امریکہ متعدد بار پاکستان ایران گیس پائپ لائن کی مخالفت اور اس کے نتیجے میں پابندیوں کا عندیہ دے چکا ہے۔

رواں سال مارچ میں امریکی محکمہ خارجہ نے کہا تھا کہ ’امریکہ پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی حمایت نہیں کرتا اور ایران کے ساتھ کاروبار کرنے سے امریکی پابندیوں کی زد میں آنے کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔‘

عمران خان کے خلاف فوجی عدالت میں کارروائی؟

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ نے گذشتہ دنوں ایک پریس بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کی گرفتاری اور تفتیش کے دوران اگر کسی اور کا نام سامنے آتا ہے تو اس کے خلاف بھی کارروائی ہو سکتی ہے۔

اس حوالے سے جب وفاقی وزیر دفاع خواجہ سے پوچھا گیا کہ کیا عمران خان کے خلاف فوجی عدالت میں کارروائی کا عندیہ دیا گیا ہے؟

خواجہ آصف نے اس کے جواب میں کہا کہ ’اگر کوئی اپنے ورکروں کو کہے کہ فوجی چھاؤنیوں یا فوجی دفاتر پر حملہ کرے، تو فوجی قانون کے مطابق مقدمہ چلنا چاہیے۔ کوئی ریاست کو چیلنج کرے تو ایسا نہیں ہو سکتا کہ سول جج کے سامنے پیش ہو کر اگلے دن ضمانت لے کر نکل جائے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’بتانا ہو گا کہ نو مئی کو سارے کے سارے حملے صرف فوجی دفاتر اور چھاؤنیوں پر ہی کیوں ہوئے؟ اگر جنرل فیض کے خلاف نو مئی سے پہلے اور بعد میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے شواہد موجود ہیں اور جنرل فیض کہتے ہیں کہ میں نے جو کچھ کیا ہے وہ عمران خان کے کہنے پر کیا ہے تو پھر عمران خان سے بھی پوچھا جائے گا کہ انہوں نے کیا ہے کہ نہیں۔‘

وفاقی وزیر دفاع نے نیب ترامیم کی بحالی اور عمران خان کی جانب سے ریلیف کے لیے درخواست پر بھی بات کی اور کہا کہ ’یہ ترامیم ایک آرڈینیس کا حصہ تھا جو عمران خان کے دور حکومت میں ہوا، پی ڈی ایم حکومت کے وقت ہم نے اسی آرڈینینس کو ایکٹ میں تبدیل کیا اور پارلیمنٹ سے پاس کروایا، اس کے بعد عمران خان نے اپنے ہی آرڈینینس کے خلاف سپریم کورٹ درخواست دے دی جو سپریم کورٹ نے منظور کر لی۔‘

’اس کے بعد ہم اپیل میں چلے گئے تو عدالت ترامیم بحال کر کے حکومتی اپیلیں منظور کر لیں، اور اب اپیلیں منظور ہونے کے بعد پہلا فائدہ اٹھانے والا بھی یہی شخص (عمران خان) ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان