پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے حق میں نہیں: امریکہ

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ کاروبار کرنے سے ہماری پابندیوں کی زد میں آنے کا خطرہ ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کا کہنا ہے کہ امریکہ پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی حمایت نہیں کرتا اور ایران کے ساتھ کاروبار کرنے سے امریکی پابندیوں کی زد میں آنے کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔

یہ بیان انہوں نے منگل کو واشنگٹن میں نیوز بریفنگ کے دوران پاکستان کے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کے منصوبے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں دیا۔

میتھیو ملر سے سوال کیا گیا کہ گذشتہ ہفتے اسسٹنٹ سیکریٹری ڈونلڈ لو نے کہا تھا کہ امریکہ پاکستان کے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن پر کام شروع کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ اب پاکستان کچھ قانونی فرموں سے مشاورت کر رہا ہے کہ آیا امریکہ اسے چھوٹ دے سکتا ہے یا نہیں۔ کیا رعایت کا کوئی امکان ہے یا نہیں؟

جس پر امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے جواب دیا کہ ’میں کسی بھی قسم کی ممکنہ پابندیوں کے اقدامات کا جائزہ نہیں لوں گا، جیسا کہ میں یہاں بریفنگ کے دوران پابندیوں سے متعلق کسی بھی اقدام کا جائزہ نہیں لیتا لیکن ہم ہمیشہ سب کو مشورہ دیتے ہیں کہ ایران کے ساتھ کاروبار کرنے سے ہماری پابندیوں کے زد میں آنے کا خطرہ ہے اور ہم ہر ایک کو مشورہ دیں گے کہ وہ اس پر بہت احتیاط سے غور کریں اور جیسا کہ اسسٹنٹ سیکریٹری نے پچھلے ہفتے واضح کیا تھا کہ ہم اس پائپ لائن منصوبے کو آگے بڑھانے کی حمایت نہیں کرتے۔‘

 

21 مارچ 2024 کو پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’پاکستان نے بارہا پاکستان ایران گیس پائپ لائن پر اپنے عزم کی تجدید کی ہے اور پاکستان ایران گیس پائپ لائن پر فیصلہ حکومت پاکستان کا اپنا فیصلہ ہو گا۔‘

ترجمان نے مزید کہا تھا کہ ’یہ پائپ لائن پاکستان اپنے علاقے میں تعمیر کر رہا ہے، اس وقت پہلا نکتہ گیس پائپ لائن کی تعمیر ہے، ہم اس تعمیر کے لیے پر عزم ہیں۔‘

جنوبی ایشیا کے لیے امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری آف سٹیٹ ڈونلڈ لو نے بدھ کو واشنگٹن ڈی سی میں وزارت خارجہ کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان اور ایران گیس پائپ لائن منصوبے سے متعلق سوال کے جواب میں کہا تھا کہ وہ ’اس پائپ لائن کو روکنے کے لیے امریکی حکومت کے مقصد کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈونلڈ لو نے کمیٹی میں پوچھے گئے سوال پر کہا تھا کہ اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے فروری میں ایران پاکستان (آئی پی) گیس پائپ لائن کے 80 کلومیٹر طویل حصے کی تعمیر کی منظوری کے بعد ان کا ملک اس منصوبے کی تعمیر روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اس منصوبے کا بنیادی مقصد درحقیقت ایران سے پاکستان اور ہمسایہ ملک انڈیا دونوں کو گیس کی فراہمی تھا لیکن ایران پر لگائی گئی بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے یہ منصوبہ طویل عرصے سے تک تعطل کا شکار ہے۔

امریکہ نے شروع سے ہی اس کی مخالفت کی تھی اور خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اگر پاکستان نے اس پر عمل کیا تو اسے مالی جرمانے کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ڈونلڈ لو نے کہا تھا: ’میں اس پائپ لائن کو روکنے کے لیے امریکی حکومت کی کوششوں کی مکمل حمایت کرتا ہوں۔ ہم اس مقصد کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘

پاکستان کی وزارت توانائی کے پٹرولیم ڈویژن نے گذشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ پہلے مرحلے میں ایران کے ساتھ اپنی سرحد سے گوادر تک پائپ لائن تعمیر کی جائے گی۔

اس منصوبے کی شرائط میں یہ بھی شامل ہے کہ اگر کوئی فریق مقررہ ڈیڈ لائن پر اپنے حصے کی پائپ لائن کی تعمیر مکمل نہیں کرتا تو اسے مالی جرمانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔

خیال رہے کہ 23 فروری کو نگران کابینہ توانائی کمیٹی نے ایرانی بارڈر سے گوادر تک 81 کلومیٹرپائپ لائن بچھانے کی منظوری دی تھی۔

چینی انجینیئرز پر حملہ

پریس بریفنگ کے دوران امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر سے پاکستان میں چینی انجینیئرز پر حملے سے متعلق بھی سوال کیا گیا، جس پر ان کا کہنا تھا کہ ’ہم سب سے پہلے پاکستان میں چینی انجینیئرز کے قافلے پر حملے کی مذمت کرتے ہیں۔ ہمیں جانی نقصان اور لوگوں کے زخمی ہونے پر گہرا دکھ ہوا ہے اور حملے سے متاثرہ افراد کے ساتھ دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستانی عوام نے دہشت گردوں کے ہاتھوں بہت نقصان اٹھایا ہے اور میں واضح کروں گا کہ پاکستان میں چین کے شہری بھی دہشت گرد حملوں کا شکار ہوئے ہیں۔ کسی بھی ملک کو دہشت گردی کی کارروائیوں کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔‘

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کا خط

پاکستان میں حالیہ عام انتخابات کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے جانے والے خط کے حوالے سے سوال پر جب میتھیو ملر سے ان کا ردعمل مانگا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے وہ خط پڑھا نہیں ہے اور اس پر تبصرہ کرنے کے لیے انہیں مزید وقت درکار ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ ’انٹیلی جنس ایجنسیاں عدلیہ کے کام میں مداخلت کر رہی ہیں، لہذا انٹیلی جنس اہلکاروں کے ججوں کو دھمکانے کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ