کراچی کی سٹی کورٹ نے پیر کو کارساز حادثے میں ملوث منشیات استعمال کیس کی ملزمہ نتاشہ دانش کی درخواست ضمانت مسترد کر دی۔
عدالت کے جج جوڈیشل مجسٹریٹ ایسٹ محمد رضا انصاری نے کارساز ٹریفک حادثہ کیس کی ملزمہ نتاشہ دانش کی منشیات کیس میں دائر درخواست ضمانت مسترد کی۔
ملزمہ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ان کی مؤکلہ کا 2005 سے نفسیاتی علاج ہو رہا ہے۔ ان کی طبعیت ٹھیک نہیں اس لیے عدالت میں حاضری سے استثنیٰ دیا جائے۔
عدالت نے نشے کی حالت میں ڈرائیونگ کرنے پر منشیات ایکٹ کے تحت درج مقدمے میں درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
سماعت کے بعد عدالت کے جاری کردہ تحریری حکم نامے کے مطابق ’وکیل صفائی سیکشن 11 کے حوالے سے عدالت کو مطمئن نہیں کر سکے۔‘
عدالت نے قراردیا کہ ’وکیل صفائی کا خون اور یورین کے نمونے غیر محفوظ رہنے کا دعویٰ غلط ہے۔ پولیس فائل میں ایسا کچھ نہیں ہے۔‘
عدالت نے اپنے حکم نامے میں قرار دیا ہے کہ ’اچھی سوسائٹی سے تعلق رکھنے کے باوجود نتاشہ نے نشے کی حالت میں کار ڈرائیو کی جوباعث حیرت ہے۔
’نشے کی حالت اور بغیر لائسنس کے گاڑی چلانا جرم ہے۔ نتاشہ کے جرم کی وجہ سے دو شہری اپنی جان سے چلے گئے۔‘
عدالت نے قراردیا ہے کہ ’ورثا کی جانب سے پیش کیے گئے نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، کیونکہ اس مقدمے کی سرکار مدعی ہے۔‘
عدالتی حکم نامے میں قراردیا گیا ہے کہ ’اعلی تعلیم یافتہ خاتون کا نشے کی حالت میں گاڑی چلانا حیرت انگیز ہے، اس لیے اگرملزمہ کی ضمانت ہوئی تو اس سے معاشرے پر منفی اثر پڑے گا۔‘
بعدازاں ملزمہ نتاشہ کے وکلا نے منشیات ایکٹ کے مقدمے میں درخواست ضمانت مسترد ہونے کے فیصلے کو سیشن کورٹ میں چیلنج کر دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس درخواست میں موقف اختیارکیا گیا ہے کہ ’جوڈیشل مجسٹریٹ نے درخواست ضمانت میں اہم شواہد کو نظر انداز کیا ہے۔ ملزمہ کو متوفین کے لواحقین معاف کر چکے ہیں چنانچہ ضمانت منظور کی جائے۔‘
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ایسٹ نے ملزمہ کی درخواست ضمانت پر پراسیکیوٹر کو 10 ستمبر کے لیے نوٹس جاری کر دیے۔
چھ ستمبر کو کراچی کی مقامی عدالت نے کارساز حادثے کی ملزمہ نتاشہ دانش کی ایک لاکھ روپے کی ضمانت منظور کر لی تھی، جبکہ منشیات ایکٹ کے تحت درج مقدمے میں درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا۔
سماعت کے دوران ملزمہ نتاشہ دانش اور جان سے جانے والے دو افراد کے لواحقین کے درمیان طے پانے والا حلف نامہ جمع کرایا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ’ہم نے بغیر کسی دباؤ کے اللہ کے نام پر ملزمہ کو معاف کر دیا ہے۔‘