قیامِ پاکستان کے بعد 1950 کی دہائی میں کراچی میں قدیم ایرانی پیغمبر زرتشت (فارسی میں زرتشت اور یونانی میں زوراسٹر) کے ماننے والے پارسیوں کی تعداد 25 ہزار تھی، جو اب کم ہو کر صرف 700 رہ گئی ہے۔
اب جبکہ پاکستانی پارسی ملک چھوڑ کر بیرون ملک اپنی دنیائیں بسا رہے ہیں، پاکستان میں پانچ ستارہ ہوٹل گروپ آواری ہوٹلز لمیٹڈ کو چار نسلوں سے چلانے والے کراچی کے آواری خاندان نے وطن میں ہی رہنے کو ترجیح دی ہے۔
آواری ہوٹلز لمیٹڈ کے سربراہ ڈنشا بی آواری کے مطابق: ’ہم آج جو کچھ ہیں وہ پاکستان کی وجہ سے ہیں۔ ہمارا خاندان باہر جانے کے بجائے پاکستان میں ہی رہنے کو ترجیح دے گا۔‘
ڈنشا بی آواری کے دادا، جن کا نام بھی ڈنشا آواری تھا، نے اس گروپ کا آغاز مارچ 1948 کو کیا تھا۔
ان کے دادا کے بعد ڈنشا آواری کے والد بہرام ڈی آواری نے خاندانی کاروبار کو سنبھالا، تاہم بہرام دی آواری جنوری 2023 میں 81 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔
بہرام آواری کشتی رانی کے مقابلوں میں دو مرتبہ ایشین گیمز گولڈ میڈلسٹ بھی رہ چکے تھے۔ انہوں نے پہلی بار 1978 میں منیر صادق کے ساتھ میڈل جیتا جو پاکستان کا پہلا گولڈ میڈل تھا۔ دوسری بار 1982 کے ایشین گیمز میں انہوں نے اپنی اہلیہ گوشپہ آواری کے ساتھ میڈل جیتا۔ انہیں 1978 میں صدارتی گولڈ میڈل اور 1982 میں پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا۔
بہرام آواری 1988 اور 1990 میں قومی اسمبلی کے رکن اور سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو کی مجلس شوریٰ کے رکن بھی رہے۔
انہوں نے 1983 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کی نمائندگی بھی کی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کراچی میں سمندر کے کنارے موجود آواری گروپ کی بیچ لگژری ہوٹل کا آغاز 21 مارچ 1948 کو ہوا۔ اس کے علاوہ 1978 میں آواری لاہور اور 1985 میں آواری ٹاورز کا آغاز ہوا۔
آواری گروپ کے پاکستان بھر میں آواری ایکسپریس اور آواری بوتیک کے نام سے متعدد ہوٹل ہیں۔
2021 میں سندھ حکومت نے کیماڑی کے پُل سے خمیس گیٹ تک سڑک کا نام ڈنشا آواری کے والد بہرام بی آواری کے نام پر رکھا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ڈنشا آواری نے کہا: ’لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ جب سب لوگ ملک سے باہر جا رہے ہیں تو آپ لوگ کیوں اب تک یہاں بیٹھے ہوئے ہیں؟
’میرے دادا نے اس گروپ کا آغاز کیا تھا۔ وہ پہلی نسل تھی، جس کے بعد میرے والد نے یہ کاروبار چلایا اور وہ دوسری نسل تھی۔
’میں، میرا بھائی، بہن، ہم تیسری نسل ہیں، جو پاکستان میں اس کاروبار سے منسلک ہیں۔ میرے بچے چوتھی نسل ہیں۔ میرا بیٹا بہرام، میرا بھتیجا ڈنشا گذشتہ تین سال سے ہمارے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
’وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے کینیڈا اور امریکہ گئے ہوئے ہیں۔ ہم نے انہیں کہا ہے کہ آپ لوگ آزاد ہیں، چاہیں تو باہر رہ سکتے ہیں۔ مگر انہوں نے کہا کہ نہیں ہم واپس آکر پاکستان کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔‘
ڈنشا بی آواری کے مطابق ان کے دادا انڈیا کے شہر ممبئی سے کراچی آئے تھے۔
بقول ڈنشا بی آواری: ’جب 1947 میں انڈیا اور پاکستان دو الگ ملک بنے تو ہم اس وقت بھی انڈیا نہیں گئے تو اب کیوں جائیں گے۔ ہمارا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے۔‘
آواری ہوٹلز لمیٹڈ کے زیر انتظام پاکستان کے مختلف شہروں میں واقع 10 ہوٹلوں کے 1500 سے 2000 کمرے اور تقریباً 2000 ملازم ہیں۔