پاکستان کی حکومت اور مقتدر حلقوں نے بالآخر آٹھ ستمبر کو تحریک انصاف کو جلسہ کرنے کی اجازت دے ہی دی۔
جلسہ اسلام آباد کے مضافات میں ہونا تھا اور تقریباً 40 شرائط کی بنیاد پر پی ٹی آئی کو جلسے کے لیے این او سی تھمایا گیا۔ متعدد وجوہات کی بنا پر پی ٹی آئی کو یہ این او سی ملنا اور آٹھ ستمبر تک اس این او سی کا برقرار رہنا سیاسی طور پر پی ٹی آئی کے لیے ایک کامیابی تھی، اور پاکستان کی سیاست اور پاور پلے کے زاویے سے یہ ایک اہم قدم تھا۔
آخر کار نو مئی کے بعد پی ٹی آئی کو اپنی عوامی حمایت دکھانے کا یہ پہلا موقع دیا گیا تھا۔ نو مئی کے بعد پی ٹی آئی کے وجود پر گہرے بادل چھائے ہوئے تھے۔ وہی مقتدر حلقے جن سے پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان نے (جو گذشتہ 14 ماہ سے پابند سلاسل ہیں) ذاتی مفاد کے لیے مضبوط تعلقات بنائے تھے۔
لیکن جب اعتماد اور سیاسی طاقت کا شیرازہ بکھرا اور عمران خان کی حکومت اپریل 2022 میں عدم اعتماد کے ووٹ کے نتیجے میں ختم ہوئی، تو یہ تعلقات بھی بکھر گئے۔
یوں جب جنگ چھڑ گئی تو دوستی، آئین اور اخلاقیات کہاں رہیں؟ اس کے بعد تو پاور پلے کا اکھاڑا کھل گیا، اور قوم ایک شدید اور خطرناک مقابلے کا مشاہدہ کرنے لگی۔ اس جنگ نما مقابلے میں جائز و ناجائز کا خیال نہیں رکھا گیا۔ یہ قصہ طویل ہے اور ماضی میں طاقتوروں کی غیر آئینی دوستی ہمیشہ زوال کا باعث بنی ہے۔
یہ پاکستان کی تاریخ کا حصہ ہے۔ وجوہات چاہے ہزار ہوں، غیر آئینی تعلقات کا نتیجہ ہمیشہ سیاست دانوں کے لیے سیاسی رسوائی ہی نکلا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک سادہ سبق یہ ہے کہ تمام سیاست دانوں کو مل بیٹھ کر آئین کی روح کے مطابق چارٹر آف ڈیموکریسی بنانا چاہیے تاکہ خود اور ادارے آئینی دائرہ کار میں رہیں۔ آج کل ملک کا بچہ بچہ یہ بات سمجھتا ہے کہ یہ جوڑ توڑ، اتار چڑھاؤ، دوستی اور دشمنی پاکستان اور اس کے عوام کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی ہے۔
بہرحال، آٹھ ستمبر سے جڑے کچھ ایسے اہم اور متضاد حقائق ہیں جو کہ موجودہ سیاسی حالات اور پاور پلے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ان میں سے پانچ اہم ہیں:
1. جلسے میں عوام کی بھرپور شمولیت، چاہے وہ انفرادی طور پر آئے ہوں یا قافلوں کی صورت میں اور عمران خان کے ساتھ کھڑے رہنا، اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پی ٹی آئی کا مینڈیٹ اب بھی قائم ہے۔ ایک عینی شاہد کے طور پر یہ کہنا درست ہوگا کہ عمران خان کے 31 مارچ 2022 کے پریڈ گراؤنڈ کے جلسے کا جوش و خروش اور شرکت آٹھ ستمبر کو بھی دکھائی دے رہی تھی۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ اور عوام کی فطرت یہی بتاتی ہے کہ کمزور کے ساتھ کھڑے رہنے کی روایت مضبوط ہے۔
2. جلسے میں عوام کی بھرپور موجودگی اور مینڈیٹ کے برقرار رہنے پر پی ٹی آئی کی قیادت، خاص طور پر عمران خان کے چہیتے رہنما خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈ اپور نے، اپنی غیر مناسب زبان اور خواتین، صحافیوں اور دیگر مخالفین پر بےجا الزامات سے جلسے کی کامیابی کو نقصان پہنچایا۔
انہی حلقوں سے جن سے مذاکرات کی کی کوشش میں رہنا، ذاتی طور پر ملتے رہنا، انہی پر لفظی گولے داغنا، دھمکیاں دینا، سیاسی کم عقلی اور ذہنی پسماندگی کا مظاہرہ تھا۔
وزیراعلیٰ صاحب کی زبان اور دھمکیاں غیر مہذب اور سیاسی ناپختگی کا ثبوت تھیں۔ کم از کم غیر مشروط معافی تو بنتی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سوچ یہ ہے کہ جماعت کی اعلیٰ ترین قیادت یعنی عمران خان نے جیل میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اپنے وزیر اعلی کو معافی مانگنے کا نہیں کہا۔ قیاس آرائیاں تو بہت ہوئیں کہ آخر عمران خان نے کہا کیا لیکن پی ٹی آئی کے موجودہ چیئرمین بیرسٹر گوہر خان کی جانب سے پہلے گنڈاپور کی غیراخلاقی باتوں پر معذرت کرنا اور پھر بعد میں یہ کہہ دینا کہ گنڈاپور نے کچھ غلط نہیں کہا اور معافی مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں، یقینی طور پر عمران خان کی ہی مرضی کی عکاسی تھی۔
تہذیب کو بالائے طاق رکھ کر سیاسی جنگ لڑنا پی ٹی آئی کا ایک پرانا طریقہ ہے- اس پارٹی میں اور پارٹیوں کے مقابلے میں عموماً گالم گلوچ پر کچھ زیادہ ہی انحصار کیا جاتا ہے۔
3. جلسے کے دوران وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے جس انداز سے سٹیج سے گفتگو کی اور جس قسم کے الفاظ استعمال کیے، اس کے باوجود تحریک انصاف کی قیادت نے انہیں تحفظ دیا۔ بیرسٹر گوہر خان نے بھی وزیراعلیٰ کو معذرت کرنے سے روک دیا، جو پارٹی کی پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے دنیا ٹی وی کے ایک پروگرام میں کہا کہ وزیر اعلی حکومت اس کے اداروں یعنی انٹیلی جنس ایجنسیوں وغیرہ سے گفتگو کر رہے تھے، اس وجہ سے جلسے کے بعد ان کا ان سے رابطہ نہیں ہو پایا تھا۔ راجہ صاحب نے پروگرام میں بتایا کہ وزیر اعلی ان اداروں سے اہم معاملات یعنی سکیورٹی، سیاست اور عمران خان کی رہائی پر بات کر رہے تھے۔
4. پی ٹی آئی کو اجازت نامے کے ساتھ جو 40 شرائط دی گئی تھی ان میں ایک یہ تھی کہ جلسہ سات بجے شام ختم کرنا ہو گا اور ساتھ ہی اسلام آباد جلسوں کے حوالے سے ایک قانون لایا گیا جس کی خلاف ورزی پر لوگوں کو قید کیا جائے گا، یقینی طور پر پی ٹی آئی کے لیے ایک پھندا اور حکومت اور اداروں کے لیے کارآمد ہتھیار ثابت ہوا۔
پی ٹی آئی نے اس شرط کی خلاف ورزی کی۔ اس کے نتیجے میں متعدد پی ٹی آئی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا گیا۔
5. جلسے کے بعد حکومت اور مقتدر حلقوں نے پی ٹی آئی قیادت کے خلاف کارروائیاں شروع کیں، جس میں متعدد پارلیمنٹرین کو گرفتار کیا گیا۔ اس کے بعد پارلیمنٹ کے تقدس اور ارکان کے حقوق پر سوالات اٹھائے گئے۔
حکومت اور تمام اداروں نے تحریک انصاف کے عوام کی شمولیت کی حد تک بہت کامیاب جلسے کے بعد پی ٹی آئی قیادت سے نمٹنے کا طریقہ کار اپنایا۔ جلسے کی کوریج کے سلسلے میں میڈیا میں عمومی طور پر منفی ہی خبریں دی گئیں۔
عوام کی بھرپور شراکت کو یہ کہہ کر کابینہ کے ارکان نے رد کرنے کی کوشش کی کہ یہ جلسہ نہیں ’جلسی‘ تھی۔ البتہ پی ٹی آئی اور پولیس کی جھڑپوں کی نمایاں کوریج کی گئی۔
اس کے بعد نو ستمبر کو پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماؤں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی۔ پارلیمان کی عمارت میں ان کا پیچھا کیا گیا اور بعض خبروں کے مطابق کچھ کو پارلیمان کی حدود میں سے گرفتار کیا گیا۔
اب سپیکر سردار ایاز صادق پارلیمنٹ اور پارلیمنٹیرین کے حقوق اور تقدس کا تحفظ کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ یہ 2014 میں پارلیمان کے تقدس کو پامال کرنے والی حرکات کا بابِ دوم ہے۔ 2014 میں اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری یہی کر رہے تھے۔
اب عمران خان کہتے ہیں کہ مجھ سے اسٹیبلشمنٹ نے دھوکہ کیا ہے۔ یعنی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت نے این او سی بھی دیا لیکن جلسے کے بعد کے معاملات کا انتہائی بگاڑ سب کے سامنے ہے۔ کس کی کیا غلطی ہے وہ تو سامنے ہی ہے، اس کا ذکر بھی ہوا۔
سوال اب ایک ہی ہے کہ گنڈاپور صاحب کی اسٹیبلشمنٹ سے گفتگو کے نتیجے میں کیا پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے معاملات کچھ بہتری کی طرف جائیں گے اور آگے مذاکرات پر مبنی کوئی راستہ اپنایا جائے گا، یا یہ محاذ آرائی یوں ہی جاری رہے گی؟
اس وقت پاکستان اور اس کے عوام کے مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی جنگ کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔
نوٹ: نسیم زہرہ سینیئر صحافی، ٹی وی اینکر اور مصنفہ ہیں۔
’یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔