پاکستان تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کی گرفتاری کا عمل اور سابق وزیراعظم عمران خان کے ممکنہ فوجی مقدمے کی خبروں نے پاکستانی سیاست پر اسٹیبلشمنٹ کے بڑھتے ہوئے غلبے کے حوالے سے کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
کچھ سوالات سیاست دانوں کی کوتاہ اندیشی اور موقع پرستی کے حوالے سے بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔
گو کہ سپیکر قومی اسمبلی نے ایوان کی سکیورٹی کے ذمہ دار کچھ اہلکاروں کو معطل کیا ہے جبکہ خیبر پختونخوا کی اسمبلی نے بھی فوجی افسران کو سیاست سے دور رکھنے کی قرارداد پیش کی ہے لیکن ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان کی قومی و صوبائی اسمبلیاں اور سینیٹ صرف قرارداد پاس کرنے والے کلب بن چکے ہیں، جن کے پاس حقیقی معنوں میں کوئی اختیار نہیں ہے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ کسی دور میں کم از کم قانون سازی کی حد تک اختیار ان اسمبلیوں کو تھا لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قوانین کا مسودہ بھی کہیں اور تیار کیا جاتا ہے اور پارلیمنٹ اس کو کافی حد تک بغیر کسی بھرپور سوچ بچار اور مزاحمت کے قبول کر لیتی ہے۔ گو کہ کچھ سیاست دان سیاہ قوانین پر آنسو ضرور بہاتے ہیں لیکن اس سے آگے نہیں جاتے۔
پارلیمان کی اس بےتوقیری پر قومی رہنماؤں کی خاموشی بھی کئی حلقوں میں زیر بحث ہے، خصوصاً سابق وزیراعظم نواز شریف، جو اس ساری صورت حال میں گمشدہ معلوم ہوتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری نے اس پر لب کشائی کی ہے لیکن انہوں نے بھی اپنی توپوں کا رخ راولپنڈی کی جگہ جاتی امرا کی طرف کیا اور حکومت پر الزام لگایا کہ وہ جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ سے سخت نالاں مولانا فضل الرحمن بھی پارلیمان کی اس بےتوقیری پر کوئی بھرپور ردعمل نہیں دے سکے بلکہ انہوں نے اسی اعلان پہ اکتفا کیا کہ وہ حزب اختلاف کا حصہ رہیں گے۔
پارلیمنٹ کی اس بے توقیری، پاکستان تحریک انصاف کے خلاف کریک ڈاؤن میں شدت اور بلوچستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنان کے فورتھ شیڈول میں نام ڈالے جانے کے عمل کو کئی سیاسی مبصرین سیاست دانوں کی کوتاہ اندیشی قرار دے رہے ہیں، جس کے، ان کے خیال میں، خطرناک نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔
سیاست دانوں کی اس جی حضوری اور تابعداری کو پیش نظر رکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاید پاکستان میں سیاسی معاملات میں کبھی اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت ختم نہیں ہو گی اور نہ سویلین معاملات میں اس کے اثر ورسوخ کو کم کیا جا سکے گا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہمیشہ بہت طاقت ور رہا ہے، تاہم سیاسی جماعتیں اپنے طور پر کسی نہ کسی طرح اس اثر و رسوخ کے خلاف مزاحمت بھی کرتی رہی ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد کے ابتدائی برسوں میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان، آزاد پاکستان پارٹی، عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی، 70 اور 80 کی دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کے ساتھ تحریک بحالی جمہوریت کی دوسری اتحادی جماعتیں جبکہ نوئے کی دہائی میں ایم کیو ایم، سندھی اور بلوچ قوم پرستوں نے اس اثر و رسوخ کے خلاف مزاحمت کی۔
نوئے کی دہائی میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں سے ہی سیاسی طور پر کئی غلطیاں ہوئیں۔ ایک طرف نواز شریف نے بےنظیر بھٹو کے خلاف کاروان نکالا تو دوسری طرف بےنظیر نے نواز شریف کے خلاف لانگ مارچ کیا جبکہ دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو حوالات اور جیلوں کی بھی سیر کروائی اور مقدمات کے انبار بھی لگائے۔
تاہم جنرل مشرف کے دور میں میثاق جمہوریت پر دستخط ہونے کے بعد یہ امید کی جا رہی تھی کہ اب سیاست دان ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے لیکن بدقسمتی سے جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے جمہوریت کے لیے کام کرنے کا عہد کیا تو ناقدین کے مطابق ’عمران خان کی صورت میں ایک تیسری قوت تیار کر دی گئی، جس نے جی ایچ کیو کی تابعداری میں سیاسی جماعتوں کو بدنام کیا۔ جنرل باجوہ کو تمغہ جمہوریت دیا۔ جنرل فیض کے ذریعے عدلیہ، میڈیا اور اراکین اسمبلی پر دباؤ ڈلوایا اور جاسوس ایجنسیوں کے بےجا اختیارات کا یہ کہہ کر دفاع کیا گیا کہ جاسوس ایجنسیاں شہریوں کی ٹیلیفون کالیں سن کر ملک کی خدمت کرتی ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے آپ کو جب سنجیدگی سے وزیراعظم سمجھنا شروع کر دیا تو ان کی طاقتور حلقوں سے لڑائی شروع ہو گئی۔ قانونی اور آئینی طور پر وزیراعظم کو اس بات کا استحقاق ہے کہ وہ آئی ایس آئی یا آرمی چیف کا تقرر کرے لیکن جب عمران خان نے اپنے اس اختیار کو استعمال کرنے کی کوشش کی، تو ان کے ساتھ تقریباً وہی کچھ ہوا جو 90 کی دہائی میں نواز شریف کے ساتھ یا پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت کے دوران بےنظیر بھٹو کے ساتھ ہوا تھا۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ جب عمران خان کا جنرل فیض کو کور کمانڈر پشاور بنانے کے معاملے پر اختلاف ہوا تھا، اس وقت سیاسی جماعتوں کو پی ٹی آئی کی حکومت کا ساتھ دینا چاہیے تھا اور وزیراعظم کے اس اختیار کو ماننا چاہیے تھا کہ وہ جاسوس ادارے کے سربراہ کو خود مقرر کرے۔
کہا جاتا ہے کہ ملک کی سیاسی اشرافیہ کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی ایک جماعت اسٹیبلشمنٹ سے اصولی اختلافات کرتے ہوئے اس کی گود سے اترتی ہے، تو ’بارہ، تیرہ دوسری جماعتیں اس کی گود میں بیٹھنے کے لیے قطار لگا کر کھڑی ہوجاتی ہیں۔‘
عمران خان کے ساتھ بھی یہی ہوا اور جب ملک کے طاقتور حلقوں سے ان کا اختلاف ہوا تو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی بمع اہل و عیال تابعداری کے لیے فوراً تیار ہو گئیں۔ ووٹ کو عزت دو، پارلیمنٹ کی برتری، آئین کی پاسداری اور جمہوریت کے تمام دعوے کچھ ہی لمحوں میں ہوا میں تحلیل ہو گئے۔
شہباز شریف نے ثابت کیا کہ وہ پاکستان کی تاریخ کے کمزور ترین سربراہِ حکومت ہیں، جن کا موازنہ محمد خان جونیجو سے بھی نہیں کیا جا سکتا، جنہوں نے کم از کم جینیوا معاہدے اور دوسرے معاملات پر طاقتور حلقوں سے کھل کے اختلاف بھی کیا اور اپنے اختیار کو استعمال بھی کرنے کی کوشش کی۔
شہباز شریف کے بارے میں تاثر یہ ہے کہ اگر ان سے 80 فیصد تابعداری کا تقاضا کیا جائے تو وہ 101 فیصد جی حضوری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
سیاست دانوں کی اس جی حضوری اور تابعداری کو پیش نظر رکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاید پاکستان میں سیاسی معاملات میں کبھی اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت ختم نہیں ہو گی اور نہ سویلین معاملات میں اس کے اثر ورسوخ کو کم کیا جا سکے گا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔