اختیار کی لڑائی

آئینی بحران وسیع تر ہو رہا ہے، جب کہ آنے والے دنوں میں ایسی قانون سازی ہو سکتی ہے، جو مزید بحران کا سبب بنے۔ شاید بےباک تقاریر اسی کی پیش بندی ہیں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کا ایک منظر (سہیل اختر/انڈپینڈنٹ اردو)

ہم تاریخ کے عجب موڑ پر آ کھڑے ہوئے ہیں، جہاں جمہوریت کے نام پر آمریت اور آئین کے نام پر بے آئینی کا رواج عام ہو چکا ہے۔ دستور کے معنی بدل گئے ہیں، جب کہ ہر کوئی اپنے اپنے قوانین بنائے بیٹھا ہے۔ اختیار کی یہ لڑائی حتمی مرحلے کے دروازے پر پہنچ چکی ہے۔ ایسا کبھی ہوا نہیں مگر جو ہو رہا ہے ایسا کب تک چلے گا؟

پارلیمانی جمہوریت تو عرصہ دراز سے رخصت ہو چکی یا شاید کبھی آئی ہی نہیں۔ بہرحال اسی پارلیمنٹ نے ٹوٹے پاکستان کو بے انتہا تفریق کے دور میں بے اندازہ تقسیم کے ماحول میں ایک متفقہ آئین دیا۔ تقسیم کا یہ عالم ہے کہ اب اس واحد متفقہ آئین کی انفرادیت اور اشتراکیت خطرے کا شکار ہو گئی ہے۔ 

اختیار کی لڑائی کے فریق بڑھتے جا رہے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے حال ہی میں ایک تقریب سے خطاب میں انتظامیہ کو چیلنج دیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد تو ہر حال میں کرنا ہو گا۔ سینیئر ترین جج، جنہیں چند ماہ میں چیف جسسٹس مقرر ہونا ہے، اس طرح کے الفاظ کیوں کر استعمال کریں گے؟

جنہیں انصاف کی اعلیٰ ترین کرسی پر بیٹھنا ہے انہیں یہ کیوں کہنا پڑا کہ انتظامیہ کے پاس عمل درآمد کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ایک سینیئر ترین جج کے یوں کھل کر بولنے کی کوئی وجہ تو ہو گی؟

کوئی خدشہ تو ایسا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ جیسے معتبر جج کو بولنے پر مجبور کر رہا ہے۔ جانتے ہوئے کہ ججوں کے فیصلے بولتے ہیں جج نہیں، سمجھتے ہوئے کہ منصف کا قلم اظہار کا معتبر ذریعہ ہے، ادراک رکھتے ہوئے کہ الفاظ کا چناؤ ایک جج کے لیے کس قدر اہمیت رکھتا ہے، کیوں کر انہیں عوام کے بیچ آ کر یہ دھمکی آمیز الفاظ کہنا پڑے؟

کیا ہم پارلیمانی جمہوریت سے نکلتے اور آمریت سے بچتے ہوئے عدالتی حاکمیت کا شکار ہو رہے ہیں؟ کیا کمزور سیاست اور کمزور پارلیمان اختیار کا ایک اور مرکز تشکیل دے چکے ہیں؟ کیا مقتدرہ اور عدلیہ طاقت کی کھینچا تانی میں آئین جیسی دستاویز کو فراموش کر رہے ہیں؟

الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے تو سپریم کورٹ کی مداخلت سوال۔۔ پارلیمنٹ قانون ساز ادارہ ہے تو سپریم کورٹ کی حدود سوال۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بنیادی سوال یہ ہے کہ عدالت عظمی کس اختیار کے تحت مخصوص نشستوں کے معاملے پر قانون اور آئین کے تحت دیے گئے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے سکتی ہے؟ کس طرح الیکشن کمیشن کی آئینی حدود میں مداخلت کر سکتی ہے؟ 

بہر حال سپریم کورٹ کی جانب سے 63 اے کی تشریح کا معاملہ ہو یا 90 دن میں انتخابات سے متعلق فیصلوں پر عمل درآمد کا مسئلہ، آئین ہر جگہ پس پشت ڈالا گیا ہے۔ اس کی ذمہ داری کس پر ہے؟ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے۔

گذشتہ چند ماہ کے دوران مقتدرہ اور سپریم کورٹ میں محاذ آرائی نظر آئی، جو اب پارلیمان اور سپریم کورٹ میں نظر آتی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد ضروری ہے لیکن سپریم کورٹ کا آئینی تشریح کے نام پر آئین سازی اور قانون سازی کا اختیار استعمال کرنا بہرحال خطرناک حد ہے، جسے اب کئی بار عبور کیا جا چکا ہے۔

سپریم کورٹ کے تقسیم اور اکثریتی ججوں کا ایک طرف ہونا اس بات کی دلیل قطعاً نہیں کہ عوامی عدالتوں کا قیام ہو اور فیصلے قانون و آئین کی  بجائے رائے عامہ پر ہوں۔ موجودہ آئینی بحران وسیع تر ہو رہا ہے، جب کہ آنے والے دنوں میں ایسی قانون سازی ہو سکتی ہے، جو مزید بحران کا سبب بنے۔ شاید بےباک تقاریر اسی کی پیش بندی ہیں۔

سیاسی بحران کی شدت کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ اس بابت بار بار بنگلہ دیش کی مثالیں دی جا رہی ہیں۔ نیکٹا اس سلسلے میں جو خدشات پرچے کی صورت نکال چکا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی طور اداروں میں پریشانی بہرحال موجود ہے، جب کہ عمران خان کسی بڑے واقعے کے خدشے کا اظہار حال ہی میں کر چکے ہیں۔

نو مئی کا واقعہ بھی کسی ایسے ہی بڑے خدشے کا نتیجہ تھا لیکن ایک ناکام سازش ثابت ہوا۔۔ اب مگر کسی سانحے کی گنجائش نہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر