اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کے مقدمے کے فوجی عدالت میں ممکنہ ٹرائل اور حراست میں لیے جانے کے خلاف دائر درخواست میں جمعرات کو وفاقی حکومت سے 16 ستمبر تک وضاحت طلب کر لی ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ’وزرا کی طرف سے عمران خان کے ملٹری ٹرائل کی دھمکی دی گئی۔ عمران خان ایک سویلین ہیں اور سویلین کا ملٹری ٹرائل درخواست گزار اور عدالت کے لیے باعثِ فکر ہے۔‘
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے جمعرات کو عمران خان کی درخواست پر سماعت کی اور اسسٹنٹ اٹارنی جنرل عظمت بشیر کو اٹارنی جنرل آفس سے ہدایات لینے کا کہا۔
عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری نے عدالت کو بتایا کہ ’ابھی تو عمران خان کے خلاف فوجی عدالت میں کوئی کیس نہیں لیکن مستقبل قریب میں ہو سکتا ہے۔‘
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ ’آپ کہہ رہے ہیں کہ کوئی کیس نہیں، لیکن آگے ہو سکتا ہے؟‘ جس پر عمران خان کے وکیل نے جواب دیا کہ ’ہمیں خدشہ ہے۔‘
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ ’یہ تو سیاست ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وکیل نے کہا کہ ’اس معاملے پر ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے بیان آیا ہے۔ اعلیٰ حکومتی اور فوجی عہدیداروں کی طرف سے بھی بیانات دیے گئے ہیں۔‘
جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے جواب دیا: ’وہ بھی سیاست ہے۔‘
معزز جج کا مزید کہنا تھا کہ ’درخواست گزار کے وکیل کہتے ہیں کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے بیان آیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو وفاق کی طرف سے واضح موقف آنا چاہیے۔ آج ہم کہہ دیں کہ ابھی کچھ نہیں، کل وہ آپ کے ملٹری ٹرائل کا آرڈر لے آئیں پھر کیا ہو گا؟‘
اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایات دیں کہ ’وفاقی حکومت سے ہدایات لے کر پیر کو عدالت کو واضح آگاہ کریں۔‘
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اس موقعے پر کہا کہ ’میری استدعا ہے کہ پہلے درخواست پر عائد اعتراضات کا فیصلہ کر لیا جائے۔‘
جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ’میں درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات دور کر رہا ہوں، سپریم کورٹ کا فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل سے متعلق فیصلہ موجود ہے، جواب دیں کہ کیا عمران خان کے ملٹری ٹرائل کا معاملہ زیرغور ہے؟ اگر ایسا کچھ نہ ہوا تو درخواست غیرموثر ہو جائے گی، اگر ایسا کچھ زیرغور ہوا تو پھر ہم اس کیس کو سن کر فیصلہ کریں گے۔‘
عمران خان نے درخواست کب جمع کروائی؟
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ میجر جنرل احمد شریف چوہدری کی پانچ ستمبر کی پریس بریفنگ کے بعد بانی پی ٹی آئی عمران خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کے خلاف انکوائری میں اگر کوئی اور بھی ملوث ہوا تو اس کے خلاف بھی کارروائی ہو سکتی ہے۔‘
اس بیان کے پیش نظر عمران خان، جو اس وقت وزیراعظم تھے، نے وکیل عزیر کرامت بھنڈاری کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی، جس میں سیکریٹری قانون، سیکریٹری داخلہ، وفاق، آئی جی اسلام آباد، آئی جی پنجاب، ڈی جی ایف آئی اے اور آئی جی جیل خانہ جات کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ ’عمران خان کو فوجی تحویل میں دینے سے روکا جائے اور یقینی بنایا جائے کہ بانی پی ٹی آئی سویلین عدالتوں اور سویلین تحویل میں ہی رہیں۔‘
پاکستان تحریک انصاف نے اپنے بانی چیئرمین عمران خان کو مقدمے کے لیے ممکنہ طور پر فوج کی تحویل میں دیے جانے کے خلاف رواں برس جولائی میں بھی لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
عمران خان کے وکیل عزیز کرامت کے ذریعے لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ نو مئی 2023 کے مقدمات میں عمران خان کو مقدمے کی سماعت کے لیے فوج کے حوالے کیے جانے کا خدشہ ہے۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ ملک میں سول عدالتیں آئین و قانون کے مطابق کام کر رہی ہیں، لہذا عمران خان کے مقدمے کی سماعت فوجی عدالتوں میں کرنے کی بجائے سول عدالتوں میں جاری رکھنے کا حکم دیا جائے۔
گذشتہ برس نو مئی کو عمران خان کی نیب کے ہاتھوں مبینہ کرپشن کیس میں گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پرتشدد احتجاج کے دوران فوجی تنصیبات پر حملوں اور نجی و قومی املاک کی توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات سامنے آئے تھے۔
حکومت نے ان افراد کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں کیس چلانے کا فیصلہ کیا تھا۔