ٹیلی گرام کا انتہا پسندی اور پروپیگنڈا کے پھیلاؤ سے کیا تعلق؟

یہ ایپ حالیہ دور میں انتہائی دائیں بازو کے فسادات کے دوران غلط معلومات کا مرکز بن گئی لیکن یہ طویل عرصے سے سازشی نظریات کا ایک پلیٹ فارم رہی ہے۔ دو سابق انتہا پسند صارفین نے زوئی بیٹی کو بتایا کہ وہ کس طرح ایک مشکل میں پھنس گئے۔

جنوبی انگلینڈ کے شہر برسٹل میں 29 جولائی 2024 کو ہونے والے چاقو کے حملے کے ردعمل میں ہونے والے مظاہرے کے خلاف 3 اگست 2024 کو احتجاج کرنے والے ایک شخص نے ایک پلے کارڈ اٹھا رکھا ہے جس پر لکھا ہے کہ 'جھوٹ بند کرو، جہنم، فاشزم، نفرت' (جسٹن ٹالس/ اے ایف پی)

ایک لنک۔ ایک کلک۔ ایک تجسس بھرا بیان: وہ جو نہیں چاہتے کہ آپ کو معلوم ہو۔ یہ 2020 ہے اور جیس* اپنے والدین کے مکان کے پچھلے کمرے میں بےخبر ہے کہ وہ ایک الجھن میں پھنسنے والی ہے۔ اس سے قبل اس نے کبھی سوشل میڈیا ایپ ٹیلی گرام یا فور چین کے (4chan)۔ ایک نامعلوم پوسٹنگ بورڈ جو تیزی سے انٹرنیٹ سب کلچر اور سازش کا گھر بن گیا – بارے میں نہیں سنا تھا۔ جلد ہی، یہ اس کی زندگی کے اگلے سال کا حصہ بن جائے گا۔

وہ وضاحت کرتی ہیں: ’میں نے پیزا گیٹ پر ایک بے ربط پوسٹ دیکھی‘ – جو کہ واشنگٹن ڈی سی میں ایک پیزا ریسٹورنٹ کے تہہ خانے سے بچوں کے جنسی استحصال کے ایک گروہ کے بارے میں مشہور، مکمل طور پر جھوٹا نظریہ ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’سچ کہوں تو میں ڈری ہوئی تھی۔ میں درحقیقت خوفزدہ تھی۔ میں پڑھتی رہی اور مزید جاننے کی ضرورت محسوس کر رہی تھی۔ کیونکہ اگر یہ سب ۔ جو میں پڑھ رہی تھی ۔ سچ ہوتا، تو یہ میری دنیا کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیتا۔‘

محض چند ہفتوں کے اندر، جیس، جو یونیورسٹی میں پڑھ رہی تھیں، ہیلری کلنٹن کے ای میلز کی سکرین شاٹس پڑھ رہی تھیں، یہ یقین رکھتے ہوئے کہ وہ ایک پیڈو فائل (بچوں کا جنسی استحصال کرنے والی) ہیں۔ جیس کہتی ہیں کہ وہ جلدی سے ان پوسٹوں پر یقین کرنے لگیں جو پیش گوئی کر رہی تھیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ بچوں کو خطرے میں ڈالنے کے الزامات کے ساتھ تقریباً ہر مشہور شخصیت کے خلاف سنگین الزامات اور گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے والے ہیں۔‘

’مشہور شخصیات، میڈیا… کے متعلق بچوں کے خلاف وحشت ناک جرائم کے الزامات تھے۔ سب نے سوچا کہ میں پاگل ہوں۔‘ لیکن جلد ہی جیس مکمل طور پر انتہائی دائیں بازو کی تصوراتی دنیا میں کھو گئیں، جو ایپ سے باہر بھی اکثر ٹیلی گرام سے سکرین شاٹس کے ذریعے پھیلائی جاتی تھیں۔ ’ایک لحاظ سے میں خود سے بہت مطمئن تھی ۔ آپ اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھتے ہیں۔ آپ کو بتایا جاتا ہے کہ دوسرے لوگ کسی دوسری ممکنات سے بالکل انجان ہیں۔‘

گذشتہ دو ہفتوں کے دوران ٹیلی گرام دائیں بازو کے فسادات کے بارے میں شہ سرخیوں اور بحث میں نمایاں رہا ہے۔ اس ایپ کے سکرین شاٹس وہ تھے جو ملک بھر کے شہروں میں تشدد منظم کرنے والے فاشسٹس گینگ کے درمیان گردش کر رہے تھے؛ ایکس/ٹوئٹر پر تشدد کو فروغ دینے والے صارفین نے اپنے  فالورز کو ٹیلی گرام کی طرف متوجہ  کیا۔

یہ نئی بات نہیں ہے۔ دراصل، ٹیلی گرام طویل عرصے سے خطرناک دائیں بازو کے بیانات اور سازشی نظریات کا مرکز رہا ہے۔ ساوتھ پورٹ کی اموات کے بعد ٹیلی گرام کے عموماً گمنام صارفین سڑکوں پر نکل آئے۔

امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل کے ڈیجیٹل فورینزک ریسرچ لیب کے سکیورٹی محقق رسلان ٹریڈ کہتے ہیں کہ ٹیلی گرام آج دنیا میں سب سے مقبول پلیٹ فارم میں سے ایک ہے اور آنے والے سالوں میں مزید نمایاں ہو سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ایک مقبول پلیٹ فارم کیوں ہے؟ راز داری اور پرائیویسی کی ضرورت اس کی بنیاد ہے۔ چاہے ہم نوجوانوں کی بات کریں جو پسندیدہ شوق اور جنسی راز پر بات کر رہے ہیں یا انتہا پسند جو ہنگامہ آرائی اور دہشت گردی کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، ٹیلی گرام کئی سالوں سے ایک اہم منزل بن چکا ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ٹیلی گرام ’پراپیگنڈا پھیلانے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔‘ دائیں بازو کے گروپوں نے جو ایپ دریافت کی ہے ’کو معلوم ہے کہ ان کے مواد کے حذف ہونے کی فکر کیے بغیر کھل کر بات کر سکتے ہیں۔‘

وبائی مرض کے دوران ٹیلی گرام کی مقبولیت میں اضافہ ہوا – اسی وقت جیس جیسے لوگوں اور مائیکل کے والدین نے اسے دریافت کیا۔ وبا سے پہلے مائیکل کے والد کارل٭ ایسے سازشی نظریات میں دلچسپی رکھتے تھے جنہیں وہ ’زیادہ ہلکا‘ سمجھتے تھے، جیسے کہ چاند پر جعلی لینڈنگ، کولڈ فیوژن اور الیکٹرک یونیورس (ایک نظریہ جو کائنات کی گریویٹی غالب کاسمولوجی کو چیلنج کرتا ہے اور اس کی بجائے یہ دلیل دیتا ہے کہ سیاروں کو الیکٹرومیگنیٹزم کا جال آپس میں جوڑتا ہے)۔ ’لیکن جب میرے والد نے ٹیلی گرام استعمال کرنا شروع کیا تو حالات بہت خراب ہو گئے۔‘

چھبیس سالہ مائیکل، جو اپنی شناخت چھپانا چاہتا ہے، کہتا ہے کے اسے ایپ پر ایک گروپ میں شامل ہونے پر آمادہ کیا گیا۔ ٹیلی گرام نے اس سے ایک اہم وعدہ کیا کہ وہ دکھائے گا کہ وبا کے پیچھے 'حقیقت میں کیا ہو رہا ہے۔‘ دراصل، یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی اور کئی لحاظ سے سمجھ میں آتی ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ جواب تلاش کر رہے تھے اور اس وقت کنٹرول حاصل کرنا چاہتے تھے جب دنیا اچانک بکھرتی ہوئی نظر آئی۔ ٹیلی گرام پر کارل کو جو کچھ پایا اس نے اس پر یقین کر لیا۔

مائیکل، جو جرمنی کے صوبہ سیکسنی کے شہر کیم نٹز میں رہتا ہے اور اس ستمبر میں فزیکل ٹیکنالوجی میں ماسٹرز شروع کر رہا ہے، وضاحت کرتا ہے کہ ’جلد یہی وہ واحد موضوع بن گیا جس کے بارے میں وہ بات کر سکتا تھا۔ 'اس نے کبھی بھی وبا سے پہلے مجھ پر [سازشی نظریات] مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی، اس لیے تب کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اس وقت ہم تقریباً ہر موضوع پر بات کر سکتے تھے۔‘

جب کارل کو ٹیلی گرام مل گیا تو وہ مائیکل کو گروپس کا مواد دکھانے لگا ۔ ’وہ کہتے ہیں کہ ایسا مواد جو سازشی نظریات کے شوقین لوگوں کے لیے سب سے بدترین ہو سکتا ہے،‘ اور اسے قائل کرنے کی کوشش کی۔

آہستہ آہستہ، مائیکل کی والدہ نے بھی ان نظریات پر یقین کرنا شروع کر دیا۔ دو سال تک مائیکل نے سچائی سمجھانے کی سخت جدوجہد کی، لیکن اس پر دباؤ بڑھتا گیا کیونکہ ان کی ضد زیادہ جارحانہ ہوگئی۔ وہ ذہنی طور پر تھک گیا اور 'جب کوئی دفاع نہ بچا' تو وہ جو اسے بتا رہے تھے وہ قبول کرنے لگا۔ مائیکل نے کوویڈ ویکسین لگوانے سے انکار کر دیا اور حقیقت کے متزلزل ہونے کے ساتھ خود کو الگ تھلگ کرنے لگا۔

انہوں نے خود کو 'غیر ویکسین شدہ لوگوں کے لیے نوح کی کشتی' کہا۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو یہ ایک بہترین وضاحت ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ وہ کتنے پاگل ہیں۔

وہ ریڈٹ پر لکھتے ہیں کہ ’میں نے ہر سمت کا احساس اور اپنی آخری حد تک حوصلہ کھو دیا۔ ہم اس پلیٹ فارم کے ذریعے بات کر رہے ہیں کیونکہ وہ خطرہ مول نہیں لے سکتا کہ اس کے والدین، جو اب بھی مکمل طور پر سازشی نظریات میں الجھے ہوئے ہیں، ہماری بات چیت سن لیں۔

مہینوں تک مائیکل تھکا ماندہ اور ان نظریات میں الجھا رہا۔ لیکن 'اپنے والد کے ساتھ ہونے' سے اسے مسلسل نظریات کے تھونپے جانے سے کچھ دوری ملی، اور آخر کار اس کے ذہن کو یہ صلاحیت ملی کہ وہ دوبارہ اپنے عقائد پر سوال اٹھا سکے۔

جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو اس کے والدین روس کے حامی ہو گئے – جس سے مائیکل کو احساس ہوا کہ وہ غلط سمت میں ہیں۔ لیکن تب تک اس کے والدین پہلے ہی کیم ٹریلز (یہ نظریہ کہ حکومتیں خفیہ طور پر ہوائی جہازوں سے زہریلے کیمیکلز ہوا میں چھوڑ رہی ہیں)، دی گریٹ ری سیٹ اور موسمیاتی تبدیلی کے دھوکے جیسے نظریات میں مبتلا ہو چکے تھے۔ وہ نظریات کی گہرائی میں جا چکے تھے۔

مائیکل کہتے ہیں کہ نکتہء عروج گذشتہ سال آیا، جب مائیکل کے والدین نے کہا کہ وہ 'بڑے منصوبے' سے بچنے کے لیے پیراگوئے منتقل ہونا چاہتے ہیں۔ ’یہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں ہم خیال لوگ منتقل ہو سکتے تھے اور ان مشکلات سے گزر سکتے تھے جن کا وہ تصور کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنے آپ کو ’غیر ویکسین شدہ لوگوں کے لیے نوح کی کشتی‘ کہا۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو یہ ایک بہترین وضاحت ہے کہ وہ کتنے پاگل ہیں۔‘

لیکن ان کے فیصلے نے مائیکل کو بالکل توڑ کر رکھ دیا۔ وہ کہتے ہیں: 'یہ ایک آخری الوداع کی طرح تھا اور میں اسے برداشت نہیں کر سکا۔' ان کے اعلان کے کچھ ہی دیر بعد، مائیکل نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو گیا، اس کا دماغ مکمل طور پر بوجھل ہو چکا تھا اور اسے ہسپتال میں داخل کر دیا گیا۔

اب خاندان سازشی نظریات کے بارے میں بالکل بات نہیں کرتا، جس نے مائیکل کے بقول ان کے تعلقات کو بےحد بہتر کیا ہے۔ ان کے والد اب بھی وبا کے بعد کی طرح ہر سوموار کی صبح ’چہل قدمی‘ کے لیے جاتے ہیں (وہ کہتا ہے اس کا مطلب احتجاج ہے) اور ان کی والدہ اب بھی اسی طرح ’اطلاعاتی وائرس‘ سے متاثر ہے جس کا ذکر مائیکل کرتا ہے۔ وہ ریڈٹ پر لکھتے ہیں کہ ’اس بارے میں سوچنا ایسا ہی ہے جیسے آپ صرف ہاتھوں سے ایک گاڑی کو اٹھانے کی کوشش کریں۔ میں ان سے محبت کرتا ہوں۔ یہ تکلیف دہ ہے۔‘

تو ایک ایپ جیسے ٹیلی گرام کیسے غلط معلومات پھیلانے میں اتنی مؤثر ہو سکتی ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کالوم ہوڈ، سینٹر فار کاؤنٹرنگ ڈیجیٹل ہیٹ کے تحقیقاتی سربراہ وضاحت کرتے ہیں کہ ’وبا کے دوران ٹیلی گرام سازشی نظریات رکھنے والوں کے لیے ایک مفید پلیٹ فارم تھا، کیونکہ جیسے جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے آہستہ آہستہ کوویڈ اور ویکسین کی غلط معلومات کے بارے میں سخت قوانین متعارف کرائے، ٹیلی گرام وہ جگہ تھی جہاں سازشی نظریہ رکھنے والے اپنے پیروکاروں کو اپنے سب سے خام اور جھوٹے مواد تک رسائی حاصل کرنے کی ترغیب دے سکتے تھے۔‘

’اور وہ ٹیلی گرام پر ایسی کمیونٹیز بنا سکتے تھے جو مین سٹریم پلیٹ فارمز تک ان کی رسائی میں کسی بھی تبدیلی کو برداشت کر سکتی تھیں۔‘

لوگ مین سٹریم پلیٹ فارمز جیسے ایکس (سابق ٹوئٹر) کے ذریعے ٹیلی گرام تک پہنچتے ہیں۔ ’وہ اکثر کہیں گے، 'اگر آپ میرا اصل مواد دیکھنا چاہتے ہیں، تو میرے ٹیلی گرام کو دیکھیں'۔ دوسری صورتوں میں، آپ کو سوشل میڈیا پر پوسٹس میں ٹیلی گرام سے لیا گیا مواد نظر آئے گا۔

’ان لوگوں میں سے ایک حصہ جو اس مواد کو دیکھتا ہے جس میں ٹیلی گرام کا لنک شامل ہوتا ہے، سورس (زریعہ) تک پہنچ جاتا ہے، پھر ٹیلی گرام پر سائن اپ کرتا ہے... اور پھر انہیں مستقل، باقاعدہ رسائی مل جاتی ہے۔ ٹیلی گرام جس چیز میں اچھا ہے وہ اس کی تلاش کی سہولت ہے۔ لہٰذا اگر آپ کسی خاص موضوع میں دلچسپی رکھتے ہیں تو یہ آپ کو چینلز کے نام تلاش کرنے کی اجازت دے گا۔‘

ایپ کی سیاسی تاریخ متنازع رہی ہے۔ اسے ارب پتی پاول ڈوروو نے بنایا، جو روسی جلا وطن ہے اور اس نے اسے اپنے آبائی ملک میں بڑھتی ہوئی سنسرشپ کا مقابلہ کرنے کے لیے اسے بنایا تھا۔ اور جیسا کہ ٹریڈ کہتے ہیں، یہ ان اہم پلیٹ فارمز میں سے ایک تھا جو داعش کے مواصلاتی چینلز کا گھر تھا۔ ’ٹیلی گرام گروپ کے لیے پروپیگنڈے کا پسندیدہ پلیٹ فارم بھی تھا اور ہر محقق اور صحافی جو تنازعات پر توجہ مرکوز کرتا تھا، ٹیلی گرام کو تازہ ترین خبروں کے لیے استعمال اور مانیٹر کرتا تھا۔‘

2014 کی یوکرین کی جنگ نے بھی اس پلیٹ فارم کو ’بہت فروغ‘ دیا، وہ کہتے ہیں کیونکہ اسے ایک سال قبل بنایا گیا تھا۔ اس کا انٹرفیس اس پر کچھ اثرات رکھتا ہے۔ ٹریڈ کہتے ہیں کہ ’اگر آپ ایک گروپ بناتے ہیں، تو اس میں ہزاروں لوگ شامل ہو سکتے ہیں؛ پیغامات لکھنا آسان ہے۔ ٹیلی گرام فیس بک کے مقابلے میں ہلکا اور تیز ہے؛ اس میں ٹوئٹر کی حدود نہیں ہیں اور رازداری کی سطح بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔‘

’یہ وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے دائیں بازو کے گروہوں نے اس پلیٹ فارم کا استعمال کیا۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ فیس بک کی نگرانی کی جا رہی ہے۔‘

سوال یہ ہے: کیا اسے ریگولیٹ یا روکا جا سکتا ہے – اور اگر ہاں، تو کیسے؟ ٹریڈ یاد کرتے ہیں کہ 2019 میں امریکی حکومت کی طرف سے ایپ پر دباؤ ڈالا گیا تھا کہ وہ گروپ کے چینلز کو بند کرے ’جو مزید لوگوں تک پہنچ رہے تھے اور حملوں اور دھمکیوں کی صورت میں آف لائن اثر ڈال رہے تھے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ٹیلی گرام مان گیا۔ ’اس کی وجہ صرف دباؤ نہیں تھی بلکہ یہ بھی کہ پلیٹ فارم کو اشتہارات دینے والوں سے محروم ہونے کا امکان تھا۔

’مالی پہلو چند ایک عوامل میں شامل ہے جنہیں کسی پلیٹ فارم کو اصول اور معیارات متعارف کرانے کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘

پھر بھی مائیکل کے خاندان یا جیس جیسے لوگوں کے لیے تحفظ انتہائی کم ہے جو اپنے آپ کو گڑھے میں دھنستے پاتے ہیں۔

جیس کا سفر 10 ماہ سے زیادہ عرصے تک اپنے کمپیوٹر پر اکیلے بیٹھے رہنے کے بعد اختتام پذیر ہوا، جو اپنے دوستوں اور اہل خانہ سے الگ تھلگ تھا۔ ان کے لیے قیمت ایک عنصر تھا – یہ تسلیم کرنا آسان نہیں ہے کہ جس چیز میں آپ مکمل طور پر مشغول ہو جاتے ہیں، جس میں آپ نے اپنا وقت اور زندگی خرچ کی ہے، یہ سب جھوٹ ہے۔

پھر بھی وہ اکیلی تھی۔ جیس، جو اب اپنے شوہر اور 13 ماہ کے بیٹے کے ساتھ خوشی سے رہتی ہیں، کہتی ہیں کہ 'سب سے پہلے یہ میں تھی جو اس طرح محسوس نہیں کرنا چاہتی تھی۔ یہ نشے کی طرح ہے – آپ صرف اس وقت مدد کر سکتے ہیں جب آپ مدد لینا چاہیں۔ مجھے اس طرح محسوس کرنا اور اپنے خاندان کے ساتھ تعلق نہ ہونا پسند نہیں تھا۔‘

’تو میں نے آن لائن ایسے لوگوں کو دیکھنا شروع کیا جو کیو اینون کے بارے میں بات کر رہے تھے، لیکن دوسری طرف – جو اس کی تردید کر رہے تھے اور دوسرے وضاحت کے لیے مستند ذرائع تلاش کر رہے تھے۔ آہستہ آہستہ میں نے سازشی نظریات کو ختم کرنا شروع کیا اور زیادہ باوثوق ذرائع پر عمل کرنے لگی۔‘

بحالی کا راستہ آسان نہیں تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ 'میں نے فلمیں دیکھنا یا موسیقی سننا بند کر دیا تھا کیونکہ میں سوچتی تھی کہ یہ شیطانی عمل ہے۔ میں نے آہستہ آہستہ دوبارہ ان چیزوں کو متعارف کروایا۔ میں نے اپنے فون اور لیپ ٹاپ سے چھوٹے وقفے لے کر دکانوں تک چل کر جانے کے قابل تھی۔ اسی طرح کی چیزیں کرتی اور پھر میں بہتر محسوس کرنے لگی۔‘

اسے اب بھی شرم محسوس ہوتی ہے اور یہ داغ مٹانا آسان نہیں رہا ہے۔ جب اس نے اپنے موجودہ پارٹنر سے ڈیٹنگ شروع کی تو مثال کے طور پر اس کے دوستوں نے اسے خبردار کرنے کے لیے پیغام بھیجے۔ '[ایک] نے کہا کہ میرے بوائے فرینڈ کو میرے ساتھ تعلق توڑ دینا چاہیے کیونکہ اسے لگتا تھا کہ میں بنیادی طور پر ایک دہشت گرد ہوں – بہت سے لوگ کیو اینون کو کیپیٹل میں ہونے والے واقعے سے جوڑتے ہیں۔ وہ پاگل ہے۔‘

’میں نے اپنے پارٹنر کے ساتھ بات کی اور وہ پوری طرح سمجھتا ہے کہ میں ایسی نہیں ہوں۔ لیکن یہ مشکل ہے۔‘

جہاں تک مائیکل کا تعلق ہے تو وہ اپنے بریک ڈاؤن کے نتیجے میں ابھی بھی دوائی لے رہا ہے اور اپنے والدین کی بھلائی کے بارے میں فکر مند ہے۔ اس کی خوش قسمتی سے جان بچ گئی۔ لیکن سازش، غلط معلومات – جو ٹیلی گرام کے ذریعے پھیلائی گئی – اس کی زندگی میں ایک پراسرار خطرہ بنی ہوئی ہے۔ گذشتہ ہفتے ہماری سڑکوں پر اس کی موجودگی کو باقی سب کے لیے بھی مدنظر رکھتے ہوئے۔

٭جیس ان کا اصل نام نہیں ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی