پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں سوشل میڈیا کے جن کو قابو کرنے کے حوالے سے بحث چل رہی ہے اور حکومتیں اپنے اپنے طور پر اسے قابو کرنے کے لیے اقدامات کے بارے میں سوچ رہی ہیں۔
پاکستان میں بھی اس حوالے سے کافی کام ہو رہا ہے، لیکن یہاں جو کام ہو رہا ہے اس میں زیادہ سوچ بچار نہیں کی جا رہی اور ایسا لگتا ہے کہ چند افراد ایک شام بیٹھتے ہیں اور باتوں باتوں میں اس بات کا فیصلہ کر لیتے ہیں کہ سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے یہ والا قدم اٹھانا چاہیے، یہ قانون لے آئیں اور ایسا کر لیں تو اس کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
حال ہی میں چند بڑی جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقات ہوئی، جو اپنی اپنی جماعتوں کے سوشل میڈیا کو ہینڈل کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک جماعت نے کہا کہ ان کی سوشل میڈیا ٹیم ہی نہیں بلکہ ان کے رہنماؤں کی جانب سے بھی جو سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا جاتا ہے، اس پر بھی خود احتسابی ہوتی ہے اور اس میں دیکھا جاتا ہے کہ حقائق غلط تو نہیں پیش کیے گئے اور تہذیب کے دائرے میں ہے یا نہیں۔
تاہم دوسری جماعتوں میں اس قسم کا تو نظام نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس کو متعارف کروانے کا ارادہ رکھتی ہیں لیکن وہ اس بات پر متفق تھے کہ کم از کم جماعتوں سے اس بات کا آغاز کیا جائے کہ سوشل میڈیا کو قانون کے ماتحت لانا لازمی ہے، نہیں تو یہ جن نہ صرف قابو میں نہیں آئے گا بلکہ بڑھتا ہی چلتا جائے گا۔
بات بھی سہی ہے کہ کراچی کی آبادی سے کم آبادی کے یورپی ممالک نے سوشل میڈیا کے حوالے سے قوانین لاگو کر دیے ہیں تو پاکستان اب تک کیوں نہیں کر سکا۔
بات اصل میں یہ ہے کہ قوانین تو پاکستان میں بھی لائے جاتے ہیں لیکن ان قوانین میں کوئی زیادہ سوچ بچار نہیں کی جاتی بلکہ یہ قوانین ایسا تاثر دیتے ہیں کہ یہ انتقامی قانون ہے۔
اگر سوشل میڈیا ماہرین کو اکٹھا کیا جائے، بڑے بڑے سوشل میڈیا کے ناموں کو بھی ایک پلیٹ فارم پر لایا جائے اور ان کی مشاورت سے قانون بنایا جائے تو ایسا قانون بہت زیادہ اثر والا ہو گا اور قابل قبول بھی ہو گا۔
دنیا میں بہت سارے ممالک نے مختلف اقدامات اٹھائے ہیں، جن میں سے ایک ہے کہ ہر پلیٹ فارم چاہے وہ یوٹیوب پر ہو اس کو رجسٹر کروانا ضروری ہو۔ ایسا کرنے سے ہر سوشل میڈیا والا نہ صرف ریڈار میں ہو گا بلکہ اس کو یہ خوف بھی ہو گا کہ جھوٹے الزامات لگانے، کسی کی پگڑی اچھالنے اور بےتکی اور غلط خبریں پھیلانے میں اس کی پکڑ کی جا سکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
غلط یا گمراہ کن تصاویر اور غلط خبروں کی وجہ سے کئی بار یہ ہوا ہے کہ میری والدہ نے مجھے کہا کہ ’عمران خان رہا ہو گیا‘ یا ’آرمی چیف نے استعفیٰ دے دیا‘ وغیرہ وغیرہ اور میرا سب سے پہلا سوال ان سے یہ ہوتا ہے کہ ’امی آپ یو ٹیوب دیکھ رہی ہیں۔‘
اور ایسا ہی ہوتا ہے۔ میری والدہ سمیت ملک میں لاکھوں کروڑوں افراد ایسے ہیں جو ایسی ہی ویڈیوز دیکھ کر اپنا دماغ بناتے ہیں اور پھر نتیجہ تو ویسا ہی ہونا ہے، جیسا مواد ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا چلانے والوں کو بخوبی اندازہ ہے کہ آج کل جس پوسٹ میں بھی فارم 47 ڈال دو، عمران خان کی تصویر یا ان سے منسوب سچا جھوٹا بیان لگا دو تو وہ بکے گا۔
اسی لیے ویوز کی دوڑ کو ختم کرنے، جس کی وجہ سے کوئی بھی کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہو جاتا ہے، اور روکنے کے لیے ان سب کا رجسٹر ہونا بہت اہم ہے۔
لیکن سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے اس پلیٹ فارم تک رسائی ہی کو ختم کر دیا جائے اور لوگوں بشمول وزیراعظم پاکستان، وزیر داخلہ اور دیگر اہم عہدیدار وی پی این استعمال کریں، یہ بھی کوئی حل نہیں ہے۔
ایک تجویز جو سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے دی، ان میں سے ایک پر بہت زور دیا گیا اور وہ یہ تھی کہ تمام سیاسی جماعتیں بیٹھیں اور سوشل میڈیا کے حوالے سے ضابطہ اخلاق مرتب کریں، لیکن جناب میثاق جمہوریت بھی تو مرتب دیا گیا تھا، اس کا کیا ہوا؟
یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو اپنی اپنی سوشل میڈیا ٹیموں کو پبلک کرنا ہو گا تاکہ کم از کم ان کی حد تک تو سکروٹنی کی جا سکے۔
قانون کو ایک قدغن کی طرح نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ ایک ریگولیٹر کی طرح دیکھا جائے، جو بے راہ رو سوشل میڈیا کے لوگوں کو وہ کرنے سے روک رہا ہے، جس سے ملک میں افراتفری یا انتشار پھیلتا ہے، لیکن قانون کے حوالے سے ایک بڑی شرط یہ ہے کہ قانون بدنیتی پر مبنی نہ ہو۔
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔