پاکستانی وزیر تجارت جام کمال خان نے جمعرات کو شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے رکن ممالک کے وزرائے تجارت کے 23 ویں اجلاس سے افتتاحی خطاب میں کہا ہے کہ اسلام آباد ’ایس سی او ممالک کے ساتھ نئے تجارتی مواقع اور اقتصادی تعاون تلاش کرنے کا خواہش مند ہے۔‘
ایس سی او کے رکن ممالک کے وزرائے تجارت کا جمعرات (آج) سے شروع ہونے والا 23 واں اجلاس اسلام آباد میں جاری ہے۔
اس اجلاس میں ایس سی او ممالک کے تجارت اور بیرونی امور سے متعلق وزرا شریک ہیں، جس کی صدارت پاکستانی وزیر تجارت جام کمال خان کر رہے ہیں۔
پاکستانی کے سرکاری خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کے مطابق وفاقی وزیر تجارت جام کمال خان نے اپنے افتتاحی خطاب میں اجلاس کے شرکا کا پاکستان آمد پر خیرمقدم کیا اور کہا کہ اجلاس کی میزبانی پاکستان کے لیے اعزاز ہے۔
انہوں نے پاکستان کی حکومت اور عوام کی جانب سے ایس سی او کے رکن ممالک کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ’ایس سی او ممالک کے ساتھ نئے تجارتی مواقع اور اقتصادی تعاون تلاش کرنے کا خواہش مند ہے۔‘
جام کمال خان نے کہا کہ ’حالیہ سالوں کے دوران پاکستان نے ملک میں کاروباری ماحول کی بہتری اور صنعتی ترقی کے فروغ کے ساتھ ساتھ تجارتی سہولیات کی فراہمی کے لیے اہم اصلاحات متعارف کروائی ہیں۔ اس وقت ہم اپنے بنیادی ڈھانچے کو جدید خطوط پر استوار کرنے، ریگولیٹری فریم ورکس کی بہتری اور کاروبار دوست ماحول کی فراہمی کے لیے جامع حکمت عملی کے تحت اقدامات کر رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیر تجارت کا کہنا تھا کہ ’اس وقت عالمی سطح پر مختلف اقتصادی مسائل اور غیر یقینی صورت حال کاسامنا ہے۔ ایس سی او رکن ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے باہمی یکجہتی کو فروغ دیں۔‘
پاکستان ایس سی او وزرائے اعظم کی کونسل کا موجودہ چیئرمین ہونے کی حیثیت سے ان اجلاسوں کی میزبانی کر رہا ہے، جو ایس سی او کا دوسرا سب سے بڑا فورم ہے اور تنظیم کے تمام اقتصادی، تجارتی، سماجی، ثقافتی اور انسانی امور کے ساتھ ساتھ بجٹ سے متعلق معاملات کو دیکھتا ہے۔
اجلاس سے قبل دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا تھا کہ ’ایس سی او وزرا اپنی بات چیت میں علاقائی تعاون کو فروغ دینے کے طریقوں پر توجہ مرکوز کریں گے تاکہ تجارت کو بڑھایا جا سکے، پائیدار ترقی کو فروغ دیا جا سکے اور خطے میں اقتصادی خوشحالی کو بڑھانے کے لیے ایس سی او ممالک کے درمیان روابط کو بہتر بنایا جا سکے۔‘
مزید کہا گیا کہ ’اس وزارتی اجلاس میں ہونے والی گفتگو اور اس کے نتائج پر بحث اور منظوری آئندہ ماہ 16-15 اکتوبر کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والے وزرائے اعظم کی کونسل کے اجلاس میں دی جائے گی۔‘
دفتر خارجہ نے مزید کہا: ’اس فریم ورک کے تحت تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانا مشترکہ چیلنجز سے نمٹنے اور خطے کی بے پناہ اقتصادی مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے۔ پاکستان ایس سی او وزرائے اعظم کی کونسل کے میزبان اور چیئرمین کی حیثیت سے، اس پلیٹ فارم کو خطے میں اقتصادی تعاون کو فروغ دینے کے لیے استعمال کرنے کے لیے پرعزم ہے۔‘
مزید کہا گیا کہ ’اپنے جغرافیائی محل وقوع اور بڑھتی ہوئی تجارتی صلاحیت کے ساتھ، پاکستان ایس سی او ممالک کے عوام کے مشترکہ فائدے کے لیے خطے کی تجارت اور شراکت داری کے مستقبل کو تشکیل دینے میں سہولت کار کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔‘
شنگھائی تعاون تنظیم کیا ہے؟
یوریشین ممالک پر مشتمل شنگھائی تعاون تنظیم کا قیام 2001 میں عمل میں آیا اور اس کے ابتدائی چھ اراکین میں قزاقستان، کرغستان، چین، روس، تاجکستان اور ازبکستان شامل تھے، جو بعد ازاں 2017 میں پاکستان اور انڈیا کی شمولیت سے آٹھ ہو گئے۔
ایس سی او کے رکن ممالک کی تین اقسام ہیں، جن میں آٹھ مستقل اراکین کے علاوہ ایران، افغانستان، بیلاروس اور منگولیا کو آبزرورز کی حیثیت حاصل ہے جبکہ آرمینیا، آذربائیجان، کمبوڈیا، نیپال، سری لنکا اور ترکی ڈائیلاگ پارٹنرز ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے اہم مقاصد میں رکن ممالک کے درمیان باہمی اعتماد اور اچھے پڑوسی تعلقات کو فروغ دینے کے علاوہ علاقائی امن، سلامتی اور استحکام کو مضبوط بنانا اور سیاسی میدان، تجارت، معیشت، ثقافت، سائنس اور ٹیکنالوجی، تعلیم، توانائی، نقل و حمل اور رابطے، سیاحت اور ماحولیاتی تحفظ میں موثر تعاون کے لیے ایک فریم ورک تیار کرنا شامل ہیں۔