موٹر ویز، شاہراہوں پر الیکٹرک چارجنگ سٹیشن حکومتی ترجیح

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ’بجلی سے چلنے والی گاڑیوں سے نہ صرف پیٹرول اور ڈیزل کی درآمد کی مد میں قیمتی زر مبادلہ کی بچت ہو گی بلکہ یہ گاڑیاں ماحول دوست بھی ہوں گی۔‘

چار ستمبر، 2024 کی اس تصویر میں جنوبی کوریا میں ورلڈ کلائمیٹ انڈسٹری کی نمائش کے دوران ایک الیکٹرک گاڑی کو چارج کیا جا رہا ہے(اے ایف پی)

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے الیکٹرک وہیکلز (بجلی سے چلنے والی گاڑیوں) کے لیے فنانشل ماڈل پیش کرنے اور الیکٹرک وہیکلز پالیسی رواں برس نومبر تک مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔

ہفتے کو وزیراعظم آفس سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق وزیراعظم کی زیر صدارت منعقدہ ایک اجلاس میں ای-وہیکلز کے استعمال کے فروغ کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ 2022 سے اب تک مقامی سطح پر دو اور تین پہیوں پر چلنے والی الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری کے لیے 49 لائسنس جاری کیے جا چکے ہیں، جن میں سے 25 کارخانوں میں ان گاڑیوں کو بنانے کا آغاز ہو چکا ہے۔

اجلاس کو مزید بتایا گیا کہ چار پہیوں پر چلنے والی الیکٹرک گاڑیوں کی مقامی سطح پر تیاری کے حوالے سے پہلا لائسنس ستمبر 2024 میں جاری کیا گیا اور مقامی سطح پر تیار کی گئی پہلی الیکٹرک کار اس سال دسمبر تک مارکیٹ میں آ جائے گی۔

اجلاس کو آگاہ کیا گیا کہ ملک میں اس وقت دو اور تین پہیوں پر چلنے والی الیکٹرک وہیکلز کی تعداد 45 ہزار ہے جبکہ چار پہیوں پر چلنے والی الیکٹرک وہیکلز کی تعداد 2600 ہے۔

اجلاس کو مزید بتایا گیا کہ الیکٹرک گاڑیوں کے لیے ری- چارج سٹیشنز ترجیحی بنیادوں پر موٹرویز، جی ٹی روڈ (قومی شاہراہ 5)، قومی شاہراہ 65 اور 70 پر لگائے جائیں گے۔

اجلاس کے شرکا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کے فروغ کے لیے حکومت ترجیحی اقدامات اٹھا رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ’بجلی سے چلنے والی گاڑیوں سے نہ صرف پیٹرول اور ڈیزل کی درآمد کی مد میں قیمتی زر مبادلہ کی بچت ہو گی بلکہ یہ گاڑیاں ماحول دوست بھی ہوں گی۔‘

وزیراعظم نے الیکٹرک وہیکلز کے حوالے سے ایک جامع فنانشل ماڈل پیش کرنے اور اس حوالے سے وفاقی وزارت خزانہ اور سٹیٹ بینک آف پاکستان سے مشاورت کی بھی ہدایت کی۔

انہوں نے مزید ہدایت کی کہ ای -وہیکلز پالیسی اس سال نومبر تک مکمل کی جائے۔ ساتھ ہی وزیراعظم نے ملک میں ای-وہیکلز کی تیاری کے حوالے سے لائسنسوں کے ضابطہ کار کو بہتر بنانے کی بھی ہدایت کی۔

مزید برآں انہوں نے ای-وہیکلز کی پالیسی کے حوالے سے تمام صوبوں، وفاقی اکائیوں اور سٹیک ہولڈرز سے ضروری مشاورت کرنے کی بھی ہدایت کی۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ لیپ ٹاپ سکیم کی طرز پر سرکاری سکولوں کے اچھی کارکردگی دکھانے والے طلبہ میں ای-موٹر بائیکس تقسیم کی جائیں گی۔

وزیراعظم نے کہا کہ ’آئندہ تمام وفاقی سرکاری اداروں میں صرف الیکٹرک موٹر بائیکس کی خریداری کی جائے گی تاکہ قومی خزانے کی بچت ہو۔‘

انہوں نے اس حوالے سے تمام وفاقی وزارتوں کو ہدایت جاری کرنے کے احکامات دیے۔ ساتھ ہی وزیراعظم نے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو اسلام آباد میں بجلی پر چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ کے حوالے سے جامع پلان ترتیب دینے کی بھی ہدایت کی۔

دنیا بھر میں الیکٹرک وہیکلز کی سب سے بڑی خوبی پیٹرول اور ڈیزل پر آنے والے اخراجات کی بچت قرار دی جاتی ہے، لیکن ان کا اصل فائدہ یہ ہے کہ ان کے سائلنسر سے کسی قسم کا دھواں خارج نہیں ہوتا بلکہ اس میں سرے سے سائلنسر موجود ہی نہیں ہے۔ اس طرح الیکٹرک وہیکلز خریدنے والوں کو پیٹرول یا ڈیزل کے ساتھ ساتھ موبل آئل اور فلٹر کی تبدیلی سے بھی نجات مل جاتی ہے۔

رواں ماہ کے آغاز میں ملٹی نیشنل کار ساز کمپنی بی وائی ڈی پاکستان نے کہا تھا کہ عالمی اہداف کے مطابق پاکستان میں 2030 تک خریدی جانے والی تمام گاڑیوں میں سے 50 فیصد تک کسی نہ کسی شکل میں الیکٹرک گاڑیاں ہوں گی۔

جبکہ رواں برس اگست میں مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ حکومت الیکٹرک گاڑیوں کے لیے چارجنگ سٹیشنز کا معیار طے کر رہی ہے اور انہیں سستی بجلی فراہم کرنے پر غور ہو رہا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی