پاکستانی کشمیر: صدر، وزیر اعظم پر تنقید پر سزائیں دینے کے قانون پر تحفظات

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں پینل کوڈ 1860 کی سیکشن 505 میں ترمیم کے ذریعے سرکار پر تنقید کو قابل مواخذہ جرم قرار دیا گیا ہے اور جرم ثابت ہونے پر کم از کم سزا سات سال قید مقرر کی گئی ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیراعظم چوہدری انوار الحق 12 جولائی، 2024 کو مظفرآباد میں ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے (سرکاری ویب سائٹ/ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر حکومت)

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں حکومت نے پینل کوڈ 1860 کے سیکشن 505 میں ترمیم کے ذریعے سرکار پر تنقید کو قابل مواخذہ جرم قرار دیا گیا ہے، جس کے بعد صدر، وزیراعظم، وزرا، سرکاری افسران اور دیگر شخصیات پر تنقید کرنے والے افراد کے خلاف مقدمات درج ہو سکیں گے۔

قانون کے مطابق جرم ثابت ہونے پر کم از کم سزا سات سال قید مقرر کی گئی ہے۔ صحافی، وکلا اور سول سوسائٹی نے اس ترمیم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’آزادی اظہارِ رائے پر حملہ‘ قرار  دیا ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں گذشتہ کئی مہینوں سے ’ڈی فیمیشن ایکٹ‘ کے بارے میں خبریں گردش میں تھیں۔

ایک بار اس ایکٹ کے مسودے کو کشمیر اسمبلی میں پیش کرنے کی کوشش بھی کی گئی، جس پر اسمبلی میں موجود صحافیوں نے شدید احتجاج اور بائیکاٹ کیا۔

صحافیوں کے احتجاج کے بعد اس ایکٹ کو روک دیا گیا اور تحفظات دور کرنے اور اس ایکٹ پر مشاورت کے لیے وزیر قانون کشمیر میاں عبدالوحید اور رکن اسمبلی احمد رضا قادری پر مشتمل ایک کمیٹی نے صحافیوں سے بات چیت کی۔

اس بات چیت کے کئی ادوار ہوئے، جن میں یہ طے پایا کہ ’ڈی فیمیشن ایکٹ‘ صحافیوں کی تجاویز لے کر ان کی مشاورت سے پیش کیا جائے گا اور اسے پاس کرنے سے پہلے صحافیوں کی مکمل رضامندی حاصل کی جائے گی۔

لیکن گذشتہ دو ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد اس ایکٹ پر کوئی بھی پیش رفت نہیں کی گئی۔

کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے چند روز قبل منعقد ہونے والے اجلاس میں حکومت کی جانب سے ایک ایکٹ پر کوئی بھی بحث کرنے کی بجائے پینل کوڈ میں پہلی ترمیم کا آرڈیننس 2024 پیش کیا گیا، جسے حتمی منظوری سے قبل مجلس منتخبہ کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

مجلس منتخبہ وزیر قانون کشمیر میاں عبدالوحید، سینیئر وزیر کرنل وقار نور، وزیر مواصلات اظہر صادق اور قائد حزب اختلاف خواجہ فاروق پر مشتمل تھی، جس نے تجویز کردہ ترمیم پر اتفاق کرتے ہوئے اسے ایوان کے سپرد کیا اور اس ترمیم کو منظور کرنے کی تحریک کی گئی، جس کے بعد ایوان نے اس ترمیم کو متفقہ طور پر منظور کر لیا۔

اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا و دیگر پلیٹ فارمز پر کشمیر کی حکومت پر مختلف مکتبہ فکر بالخصوص صحافیوں کی جانب سے تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے سینٹرل بار کشمیر کے صدر ناصر مسعود سے بات کی، جن کا کہنا تھا کہ یہ قانون کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے علاوہ کچھ نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس قانون سے نہ صرف ایک عام شہری متاثر ہوگا بلکہ وکلا اور صحافی بھی اس کی زد میں آئیں گے اور ہر اس شخص کو چپ کروا دیا جائے گا، جس نے حکومت پر تنقید کی۔‘

ناصر مسعود نے مزید کہا کہ ’ہم اسے عدلیہ میں چیلنج کرنے جا رہے ہیں اور ذاتی حیثیت کے ساتھ ساتھ سینٹرل بار کی جانب سے بھی اس معاملے کے خلاف احتجاج کریں گے۔‘

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سب سے بڑے صحافتی ادارے مرکزی ایوانِ صحافت کے صدر واحد اقبال بٹ نے اس حوالے سے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’حکومت کی ایک واردات‘ قرار دیا۔

 ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت ہتک عزت کا قانون بنانا چاہتی تھی لیکن صحافیوں کی جانب سے ردعمل آیا تو حکومت نے اس قانون کی بجائے یہاں اپنا کام کیا۔

’حکومت کا یہ اقدام آزادی رائے پر مکمل قدغن ہے اور ہم انسانی حقوق کی تنظیموں، بار کونسل اور صحافتی تنظیموں کے ساتھ مل کر اسے عدلیہ میں چیلنج کریں گے۔‘

سول سوسائٹی مظفرآباد کے صدر شاہد اعوان نے بھی اس قانون کو ’آزادی رائے پر حملہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اسے کسی صورت میں قبول نہیں کیا جائے گا اور اسے عدلیہ میں چیلنج کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر بھر میں اس کے خلاف تحریک چلائی جائے گی۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے حکومتی موقف جاننے کے لیے وزیر قانون کشمیر میاں عبد الوحید اور سیکرٹری قانون کشمیر سے رابطہ کیا، تاہم ان کی جانب سے اس پر کوئی موقف نہیں دیا گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان