پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 11 مئی کو جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے آٹے اور بجلی کے نرخوں میں اضافے کے خلاف جاری احتجاجی تحریک تو مطالبات منظور ہونے کے بعد ختم کردی گئی تاہم مظاہرین اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابین جھڑپوں میں پولیس کے مطابق ایک اہلکار اور تین مظاہرین جان سے چلے گئے۔
جمعرات کو وزیراعظم شہباز شریف نے مظفر آباد کا دورہ کرکے وہاں کے شہریوں کے لیے 23 ارب روپے کی سبسڈی کا اعلان کیا جبکہ جان سے جانے والوں کے لیے ’شہدا پیکج‘ کا بھی اعلان کیا گیا۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت کی جانب سے گذشتہ روز آٹے کی نئی قیمتیں بھی جاری کی گئیں اور اب 20 کلو تھیلے کی قیمت ایک ہزار روپے ہوگی جبکہ 40 کلو کا تھیلا دو ہزار روپے کا ہوگا۔
اسی طرح بجلی کے نرخوں میں بھی کمی کا اعلان کیا گیا اور فی یونٹ تین، پانچ اور چھ روپے کے سلیب کے حساب سے ہوگا یعنی ایک سے 100 یونٹ صرف کرنے والے صارفین کے لیے فی یونٹ تین روپے، 200 یونٹس تک پانچ روپے اور اس سے زیادہ کی قیمت چھ روپے ہوگی۔
سبسڈی کیوں دی جاتی ہے؟
اس سوال کے جواب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ گلگت بلتستان کی طرح پاکستان کا زیر انتظام کشمیر بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ایک متنازع علاقہ ہے اور اس کا انتظام ایک قانون ساز اسمبلی کے ذریعے پاکستان سنبھالتا ہے۔
وہاں کا اپنا منتخب وزیراعظم اور کابینہ ہوتی ہے، جو وہاں بیٹھ کر قانون سازی کرتی ہے جبکہ پاکستانی حکومت کی جانب سے انہیں ترقیاتی کاموں کے لیے گرانٹ بھی ملتی ہے۔
گلگت بلتستان بھی ایسا ہی ایک متنازع علاقہ ہے، جو 1947 تک ریاست جموں کشمیر کا حصہ رہا ہے لیکن وہاں کے مقامی لوگوں نے ریاست جموں کشمیر کے ہندو مہاراجا کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا تھا۔
ریاست جموں و کشمیر میں 1970 سے انتخابی عمل موجود ہے لیکن گلگلت بلتستان کو پہلی مرتبہ 2009 میں حق رائے دہی کے استعمال کی اجازت دی گئی۔
اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں لوگوں کو آٹے پر کب سے سبسڈی دی جا رہی ہے؟ اس سوال کے جواب میں کشمیر کے محکمہ خوراک کے ایک سابق سینیئر عہدیدار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ سلسلہ کوئی پانچ، دس سال سے جاری ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے 1970 سے سبسڈی دیے جانے کی خبروں سے لاعلمی کا اظہار کیا۔
سابق عہدیدار کے مطابق: ’1970 سے سبسڈی دینے کے معاملے کا مجھے کوئی آئیڈیا نہیں ہے حالانکہ میں محکمہ خوراک میں سینیئر عہدے پر رہا ہوں لیکن ایسی کسی سبسڈی کا مجھے نہیں پتہ جو 1970 سے دی جا رہی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’یہ سبسڈی آٹے کی قیمت پر نہیں بلکہ اس کی ٹرانسپورٹیشن اور دیگر اخراجات پر دی جاتی ہے جو گذشتہ دو سالوں کے دوران مہنگائی کی وجہ سے کم کی گئی تھی۔ ‘
سبسڈی ختم کرنے کی وجہ عہدیدار کے مطابق گذشتہ دو سالوں میں گندم کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ تھا اور حکومت کے لیے پوری سبسڈی دینا ممکن نہیں تھا۔
انہوں نے بتایا: ’دو سالوں سے مہنگائی کا مسئلہ آگیا تھا، جس کی وجہ سے مارکیٹ میں آٹے کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا اور گذشتہ سال سے عوامی ردعمل سامنے آنا شروع ہوگیا تھا۔‘
آٹے کی قیمتوں میں کمی کے علاوہ احتجاج کرنے والی تحریک جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے بجلی کے نرخوں اور منگلا ڈیم کی رائلٹی دینے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
منگلا ڈیم توسیعی منصوبے کے وقت 2003 میں پاکستانی حکومت نے اس وقت کی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا، جسے ’منگلا ڈیم ریزنگ معاہدہ‘ کہا جاتا ہے۔
اس معاہدے کے مطابق منگلا ڈیم کے متاثرین کو نقد رقم کے ساتھ پانچ مرلے کا پلاٹ بھی دیا جانا تھا۔
اسی طرح معاہدے کے مطابق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں فی یونٹ بجلی بھی ڈھائی روپے پر دینے کا اعلان کیا گیا تھا جبکہ اس علاقے میں کسی قسم کا جنرل سیلز ٹیکس نہیں لیا جائے گا کیونکہ وہاں کے عوام سے کشمیر کی حکومت خود جنرل سیلز ٹیکس وصول کرتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
معاہدے میں درج ہے کہ بجلی کے نرخوں میں تبدیلی کے لیے ایک کمیٹی بنائی جائے گی جو قیمتوں کا تعین کرے گی جبکہ بجلی کی قیمتوں پر حکومت کی جانب سے ایک روپیہ فی یونٹ کی سبسڈی بھی دی جائے گی۔
منگلا ڈیم پاکستان کا دوسرا اور دنیا کا ساتواں بڑا ڈیم ہے جو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع میرپور میں دریائے جہلم پر 1965 میں بنایا گیا تھا اور 2003 میں اس کی توسیع پر کام شروع کیا گیا تھا۔
عبدالحکیم کشمیری پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مقیم لکھاری و کالم نگار ہیں اور کشمیر کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آٹے کا معاملہ الگ اور بجلی کا الگ ہے۔ آٹے پر سبسڈی حکومت پاکستان نہیں بلکہ کشمیر کی حکومت دے رہی ہے اور بجلی پر کوئی سبسڈی نہیں دی جا رہی۔
عبدالحکیم نے بتایا: ’کہا جا رہا ہے کہ یہ سبسڈی 1970 سے ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں شروع ہوئی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ پسماندہ علاقہ تھا اور لوگوں کا کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا، تو تب سے یہ سبسڈی دی جا رہی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی جانب سے تقریباً آٹھ ارب روپے کی سبسڈی دی جاتی ہے اور اس کے لیے حکومت بجٹ میں فنڈ مختص کرتی ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیراعظم اور آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس پارٹی کے صدر سردار عتیق حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سبسڈی 1970 میں پہلے صدر اور چیف ایگزیکٹیو سردار عبدالقیوم (مجاہد اول) کے دور میں شروع کی گئی تھی اور اس کی قیمت فکس نہیں کی جاتی تھی۔
انہوں نے بتایا: ’سبسڈی صرف آٹے پر نہیں تھی بلکہ جو چیز مری، کوہالہ اور ان علاقوں میں دستیاب ہوتی تھی، وہی قیمت کشمیر میں ہوتی تھی۔‘
سردار عتیق کے مطابق اسی طرح آٹے کے علاوہ جنگلات کو بچانے کی غرض سے گیس سلینڈر پر بھی سبسڈی دی جاتی تھی۔
انہوں نے بتایا: ’یہ سبسڈی مٹی کے تیل، آٹے، گیس سلینڈر، کوئلے اور آٹے پر دی جاتی تھی۔ گیس سلینڈر کے ڈسٹری بیوشن مرکز اس وقت تھانے ہوا کرتے تھے۔ جو سلینڈر راولپنڈی میں 100 روپے کا ملتا تھا، وہ سلینڈر کشمیر میں 80 روپے کا ملتا تھا۔‘
یہ معاملہ پر تشدد مظاہروں تک کیسے پہنچا؟
اس سوال پر عبدالحکیم کشمیری نے بتایا کہ بجلی کے حوالے سے عوام کا مطالبہ تھا کہ یہاں ضرورت سے سات آٹھ گنا زیادہ بجلی پیدا ہوتی ہے، لہذا انہیں اس میں ریلیف دیا جائے۔
انہوں نے بتایا: ’حکومت کی جانب سے مختلف مواقع پر ٹیکس کی مد میں بل وصول کیا جاتا تھا اور 2014 میں فیول پرائس ایڈجسمنٹ بھی بل میں شامل کر دیا تو عوام میں لاوا اس وقت سے پک رہا تھا۔‘
عبدالحکیم کشمیری کے مطابق بعد میں عوام نے پیداواری لاگت کا مطالبہ شروع کر دیا کیونکہ منگلہ ڈیم 1967 میں بنا تھا لیکن 2003 تک وہاں کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں دیا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا: ’2003 میں جب منگلا توسیعی منصوبے کا آغاز ہوا تو تب بھی معاہدہ ہوا تھا لیکن دو روپے 59 پیسے فی یونٹ پر بجلی ملتی تھی جبکہ اس وقت بجلی کی فی یونٹ قیمت بھی یہی تھی۔‘
اسی طرح 2018 میں نیلم جہلم وادی میں ایک اور بجلی کا منصوبہ مکمل ہوا لیکن عبدالحکیم کے مطابق عوام کو اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں دیا گیا، جس سے غم و غصے میں مزید اضافہ ہوگیا کیونکہ بلوں میں اس کا بھی سرچارج لگا دیا گیا۔
عبدالحکیم کشمیری نے بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 161 کے مطابق جس علاقے میں بجلی پیدا ہوتی ہے، اس کا فائدہ اسی علاقے کو ہوگا لیکن یہاں ڈیم سے عوام تو متاثر ہوئے لیکن انہیں کوئی فائدہ نہیں ملا۔
انہوں نے بتایا کہ گذشتہ سال سے عوام نے مطالبات شروع کیے اور اس حوالے سے کمیٹی بھی بنائی گئی لیکن مطالبات نہیں مانے گئے اور معاملات یہاں تک پہنچ گئے۔