جب ایرانی سفارت خانے پر حملے نے برطانوی سکیورٹی کو ہلا دیا

برطانوی سرزمین پر ہونے والے سب سے حیران کن حملوں میں سے ایک کے بارے میں بین میکنٹائر کی کتاب میں تفصیل سے یہ واقعہ بیان کیا گیا جب کہ سابق وزیر خارجہ جیک سٹرا محاصرے کے اثرات کی عکاسی کررہے ہیں۔

30 نومبر 2011 کو لی گئی اس تصویر میں لندن میں واقع ایرانی سفارت خانے کا بیرونی منظر (اے ایف پی)

ہم پرانے لوگوں کو وہ سب یاد ہے جب لندن میں 16 پرنسز گیٹ پر ایران کے سفارت خانے پر دہشت گردوں نے قبضہ کر لیا تھا۔ اس کا آغاز بدھ 30 اپریل 1980 کو ہوا۔

پی سی ٹریور لاک، سفارت خانے کی حفاظت کرنے والے میٹروپولیٹن پولیس کے ڈپلومیٹک پروٹیکشن گروپ (ڈی پی جی) کے واحد ممبر تھے۔ ان کا واحد ہتھیار ایک ریوالور تھا۔ جب وہ اندرونی اور بیرونی سامنے کے دروازوں کے درمیان ڈیوڑھی میں کافی پی رہے تھے، تو اسی وقت سب مشین گنوں سے مسلح افراد اندر گھس آئے۔

میں بالکل نیا اور نوجوان رکن پارلیمنٹ تھا، مجھے برطانوی دارالعوام میں صرف 12 مہینے ہوئے تھے۔ یہ مارگریٹ تھیچر کا وزیر اعظم کی حیثیت پہلا سال تھا۔ پہلی بار اس طرح کے کسی واقعے کی ہر برطانوی ٹی وی چینل بی بی سی ون، بی بی سی ٹو اور آئی ٹی وی نے اپنا معمول کا شیڈول چھوڑ کر حملے کی براہ راست کوریج کی۔

حملے کے بعد سے 44 سالوں میں، اس ڈرامے پر فیچر فلمیں بنیں اور سینکڑوں کتابیں شائع ہوئی ہیں لیکن بین میکنٹائر کی کتاب کی گہرائی اور عمدگی سے کسی کا بھی موازنہ نہیں۔

جاسوسی اور سکیورٹی کی مخدوش دنیا کا احاطہ کرنے کے لیے ان کی اچھی شہرت اور سپیشل فورسز اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اندر ان کے اعتماد کے ساتھ، انہوں نے اس ڈرامے کے بہت سے اہم کرداروں تک بے مثال رسائی حاصل کی جو اب بھی زندہ ہیں۔

نتیجہ یہ ہے کہ یہ کتاب واقعے کی مکمل اور درست تصویر پیش کرتی ہے۔ ان واقعات کے متعلق میری واضح یادداشت کے باوجود، میکنٹائر کی تحریر اتنی دلچسپ ہے کہ میں کتاب کو آنکھوں سے اوجھل نہیں کر سکا۔

خود برطانوی فوج کی خصوصی فورس ’سپیشل ایئر سروس‘ (ایس اے ایس) ریسکیو کو’اتنا ہی وقت لگا جتنا کہ ایک انڈے کو سخت طور پر ابالنے میں لگتا ہے یعنی صرف 11 منٹ۔ سفارت خانے کی عمارت میں داخل ہونے والے ایس اے ایس کے جوان دنیا کی کسی بھی سپیشل فورس کی طرح تیار تھے لیکن ناکامی کا خطرہ پھر بھی بہت زیادہ تھا۔

خفیہ مائیکروفونز اور دیگر نگرانی کے آلات کے باوجود یرغمالی وہاں نہیں تھے جہاں ریسکیو کرنے کے لیے جانے والوں کی توقع کی تھی۔

عمارت کے اندر کا ماحول اس دھماکہ خیز مواد اور سی ایس گیس سے دھندلا گیا تھا جو فوجیوں نے اندر داخل ہونے کے لیے استعمال کیے۔

کچھ فوجیوں کے گیس ماسک مناسب طریقے سے سیل نہیں ہوئے تھے۔ سفارت خانے کی دیواروں سے نیچے لٹکتی ہوئی ٹیم لیڈر کی رسی پھنس گئی جس کی وجہ سے وہ اترنے کے مقام سے 10 فٹ اوپر لٹکے رہ گئے۔

اس سب کا نتیجہ بہت خوفناک حد تک غلط ہو سکتا تھا۔ لندن حملہ شروع ہونے سے صرف چھ دن قبل تہران میں یرغمال بنائے گئے 52 امریکی سفارت کاروں اور دیگر افراد کی بازیابی کے لیے تربیت یافتہ امریکی سپیشل فورسز کا ریسکیو آپریشن انتہائی ناکام رہا تھا جس سے صدر جمی کارٹر کی پہلے سے کمزور اتھارٹی کو مزید نقصان پہنچا تھا۔

یرغمالیوں میں سے ایک ایرانی سفارت کار کی دہشت گردوں کے ہاتھوں موت کی وجہ سے ایس اے ایس نے پوری قوت کے ساتھ حملہ کیا۔ ایک بار جب یہ شروع ہوا تو باقی تمام یرغمالی بچ گئے۔

پانچ دہشت گرد مارے گئے۔ چھٹے شخص فوزی بداوی نژاد پر قتل کا الزام عائد کیا گیا اور اسے مجرم قرار دیا گیا۔ انہوں نے 27 سال برطانیہ کی جیل میں گزارے اور 2008 میں انہیں رہا کیا گیا۔

فوزی نژاد اور ان کے ساتھیوں کا تعلق ایران کے تیل سے مالا مال جنوب مغرب میں رہنے والی ایک عرب اقلیت سے تھا۔ ان کی علیحدہ شناخت اور زبان کو پچھلی شاہی حکومت نے بے رحمی سے دبا دیا تھا۔ اس اقلیت نے 1979 کے اوائل میں ہونے والے مظاہروں میں اہم کردار ادا کیا تھا جس کے نتیجے میں شاہوں کا خاتمہ اور اسلامی جمہوریہ کا آغاز ہوا۔ لیکن اس کے نئے سپریم لیڈر روح اللہ خمینی نے انہیں بھی دبا دیا، لہذا کچھ نے نئی جمہوریہ کے خلاف دہشت گردی کا راستہ اختیار کر لیا۔

میکنٹائر نے جوابی کارروائی کا حکم دینے والے ایس اے ایس کمانڈر جنرل سر مائیکل روز کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا: ’ایرانی سفارت خانے پر حملہ ایس اے ایس کو پیش آنے والا بدترین واقعہ تھا، اس وقت تک ایس اے ایس کے بارے میں کسی کو علم نہیں تھا۔ وہ حملہ اس پرانی ایس اے ایس دنیا کے خاتمے کا آغاز تھا۔ وہ ایک عوامی تنظیم تھی۔‘

یہ ایس اے ایس کے کامیاب آپریشن کی براہ راست ٹی وی کوریج تھی جس نے انہیں عوامی شعور میں بہت شاندار طریقے سے لائی۔ لیکن وہ ’پرانی دنیا‘ ویسے بھی ختم ہونے والی تھی۔

80 کی دہائی کے آغاز سے قبل کی دہائیوں میں، برطانوی ریاست کے خفیہ سکیورٹی نظام کے متعلق انتہائی شدید راز داری تھی۔

حتیٰ کہ ایم آئی فائیو، ایم آئی سکس، جی سی ایچ کیو اور سپیشل فورسز کے وجود کو بھی سرکاری طور پر کبھی ’تسلیم‘ نہیں کیا گیا تھا۔ کوئی بھی کسی قانونی اختیار کے تابع نہیں تھا۔ لیکن 1984 اور 1994 کے درمیان، یہ سب کچھ بدل گیا۔

پہلے فون ٹیپنگ کو قانونی بنیاد دی گئی، پھر انٹیلی جنس اور سکیورٹی ایجنسیوں کو۔ اس میں آزاد جوڈیشل کمشنر اور ان کے کام کی نگرانی کے لیے ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی مقرر کی گئی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میکنٹائر کا کہنا ہے کہ حملے کے ’دلچسپ اختتام‘ نے ’مارگریٹ تھیچر کے ٹھوس کارروائی اور دہشت گردوں کے ساتھ کبھی مذاکرات نہ کرنے کا ان کے عزم اور ساکھ کو مضبوط کیا ۔ اگر ایس اے ایس کی جوابی کارروائی ناکام رہتی، جیسا کہ کچھ دن پہلے امریکی سپیشل فورسز کے ساتھ ہوا تھا، تو اس سے یقینی طور پر تھیچر کی ساکھ کو نقصان پہنچتا۔

لیکن دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات سے انکار ایک دیرینہ برطانوی پالیسی تھی اور اب بھی ہے۔ جوابی کارروائی کی کامیابی نے کنزرویٹو پارٹی کی انتخابی درجہ بندی کو تبدیل کرنے میں کوئی مدد نہیں کی، جو 1979 کے آخر میں منفی ہوگئی تھی اور اپریل 1982 میں فاک لینڈ جنگ کے آغاز تک ویسی ہی رہی۔

ایران میں لندن میں پیش آنے والے واقعہ ملک کی عرب اقلیت کے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔ اس کے بعد کچھ مخالفین جنہیں قید کیا گیا تھا، انہیں فوراً پھانسی دے دی گئی۔ اس آبادی پر جبر سخت کیا گیا۔

لندن حملے میں ملوث عرب ایرانی دہشت گردوں کو عراق میں صدام حسین کے انٹیلی جنس ایجنٹوں نے تربیت دی تھی۔ انہوں نے نقد رقم، بندوقیں، جعلی پاسپورٹ اور منصوبہ بندی کر کے دی تھی۔ صدام خمینی کے نظریات کے سخت مخالف تھے اور انہیں اپنی حکومت کے لیے خطرہ سمجھتے تھے کیونکہ عراق، جس کے وہ صدر تھے، میں شیعہ آبادی کی اکثریت ان کے حق میں نہیں تھی۔

اس حملے کے چار ماہ بعد عراق نے ایران کے خلاف بلا اشتعال جنگ شروع کر دی۔ مغربی اور سوویت حمایت اور ہتھیاروں کے ساتھ، صدام کا مقصد اپنے پڑوسی کی حکومت کا خاتمہ کرنا تھا۔

 یہ جنگ تقریبا آٹھ سال تک جاری رہی، جس میں دونوں طرف سے لاکھوں جانیں ضائع ہوئیں – اور اس کے اثرات توقع کے برعکس نکلے۔

اس سے امام خمینی اور اماموں کی حکمرانی مضبوط ہوئی اور ایرانی ریاست کے فوجی، سکیورٹی اور انٹیلی جنس ادارے سپریم لیڈر کے براہ راست کنٹرول میں چلے گئے۔

یہ مذہبی حکومت آج بھی قائم ہے۔ ایران میں ایک صدر کا انتخاب ہوتا ہے اور اس کی ایک پارلیمنٹ (مجلس) ہے لیکن منتخب حکومت کے پاس خاص طور پر دفاع، پولیسنگ اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے کتنی حقیقی طاقت ہے، یہ اس بات پر منحصر ہے کہ سپریم لیڈر حکومت کو برقرار رہنے کی کتنی اجازت دیتا ہے۔

حکومت کنٹرول کرتی ہے کہ کون انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے اور کون نہیں اور بعض اوقات وسیع پیمانے پر انتخابات میں دھاندلی کا سہارا لیتی ہے۔

اس سال مئی میں ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں سخت گیر صدر ابراہیم رئیسی کی موت کے بعد، نئے صدارتی انتخابات کے نتیجے میں، غیر متوقع طور پر، نسبتا اعتدال پسند امیدوار کا انتخاب ہوا: مسعود پزشکیان، جو ایک کارڈیک سرجن ہیں۔ انہوں نے غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنے اور معیشت کو اس مایوس کن صورت حال سے نکالنے میں مدد کرنے کے اقدامات کے بارے میں بات کی ہے۔

انہوں نے انٹرنیٹ پر عائد پابندیاں اٹھانے اور لوگوں کی نجی زندگیوں میں مداخلت کو کم کرنے کی بات کی ہے اور ایران کے جوہری پروگرام پر بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ساتھ بہتر تعلقات کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن اس بات کا امکان نہیں ہے کہ انہیں وہ آزادی دی جائے گی جو انہیں چاہییے۔

جہاں تک 16 پرنسز گیٹ کی بات ہے تو اس میں اب بھی ایران کا سفارت خانہ موجود ہے۔ آج، ایک کے بجائے، باہر ڈی پی جی کے دو ارکان کھڑے ہیں، جو سب مشین گنوں کے ساتھ ساتھ پستول سے بھی لیس ہیں۔ انہیں 1980 کے بعد سے اپنے ہتھیار نکالنے کی ضرورت نہیں پڑی۔

بین میکنٹائر کی کتاب 'دا سیج: دا ریمارکیبل سٹوری آف دی گریٹسٹ ایس اے ایس ہوسٹیج ڈراما' کو وائکنگ کی طرف سے شائع کیا گیا جس کی قیمت 25 پاؤنڈ ہے۔

جیک سٹرا لیبر پارٹی کے سیاست دان ہیں جنہوں نے ٹونی بلیئر کی وزارت عظمیٰ کے دوران 1997 سے 2001 تک وزیر داخلہ اور 2001 سے 2006 تک وزیر خارجہ سمیت کئی اہم حکومتی عہدوں پر خدمات انجام دیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین