مصنفہ کی آواز میں تحریر سنیے:
فرض کریں آپ کو اچانک پتہ چلتا ہے کہ آپ کے ساتھی، جو وہی کام کرتے ہیں جو آپ کرتے ہیں، آپ سے زیادہ تنخواہ لے رہے ہیں۔
آپ کی قابلیت، مہارت اور کارکردگی ان کے برابر ہے لیکن محض اس وجہ سے کہ کمپنی سمجھتی ہے کہ آپ کے لیے کم تنخواہ کافی ہے، آپ کو کم ادائیگی کی جا رہی ہے۔ آپ کو کیسا محسوس ہوگا؟
آپ کو یقیناً برا لگے گا۔ اس صورت حال میں ہر انسان برا ہی محسوس کرے گا۔
اب تصور کیجیے کہ یہ صورت حال عالمی سطح پر ایک غیر تحریری قانون کی حیثیت رکھتی ہے۔
دنیا کی ایک بڑی آبادی کو اس کی صلاحیت کے باوجود ایک ہی کام کے عوض کم تنخواہ دی جارہی ہے اور آپ اس آبادی کا حصہ ہیں۔ اب آپ کو کیسا لگے ہوگا؟
اب آپ کو برا لگنے کے ساتھ ساتھ بے بسی بھی محسوس ہوگی۔
خواتین کچھ ایسا ہی محسوس کرتی ہیں۔
دنیا بھر میں خواتین کو مردوں کے مقابلے میں ایک ہی کام کی کم تنخواہ دی جاتی ہے۔ انہیں مردوں کے برابر پیسے کمانے کے لیے زیادہ گھنٹے اور زیادہ محنت سے کام کرنا پڑتا ہے۔
اقوامِ متحدہ ہر سال 18 ستمبر کو دنیا بھر میں مساوی تنخواہ کا دن مناتی ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد ایک کام کے عوض ایک تنخواہ کے اصول کو فروغ دینا اور اس کے حصول کی کوششوں کو نمایاں کرنا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں صنفی اجرت کا فرق 20 فیصد ہے۔
پاکستان میں یہ فرق مزید بڑھ جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صنفی بنیادوں پر تنخواہوں میں پائے جانے والے فرق کی وجہ سے زیادہ تر خواتین کارکنوں کو ان کے جائز معاوضے میں سے سالانہ پانچ سو ارب روپے ادا ہی نہیں کیے جاتے۔
پاکستان کے سماجی و اقتصادی حالات اور ثقافتی رکاوٹوں کی وجہ سے خواتین کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں نہ پڑھنے کے مواقع ملتے ہیں، نہ ملازمت کرنے کے، اور نہ ہی اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کے۔
ان عوامل کی وجہ سے پاکستانی خواتین کی اکثریت زیادہ تنخواہوں والی نوکریوں تک رسائی حاصل نہیں کر پاتی۔
اگر خواتین ان رکاوٹوں پر قابو پانے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو بھی انہیں مردوں کے مقابلے میں کم تنخواہ دی جاتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خواتین کو پیشہ ورانہ ترقی کے بھی کم مواقع ملتے ہیں۔ ادارے اکثر ترقی دینے کے لیے عورت کے مقابلے میں مرد کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگر کسی عورت کو ترقی مل بھی جائے تو سمجھا جاتا ہے کہ اسے وہ ترقی اس کی جنس کی وجہ سے ملی ہے۔
صحافت کے شعبے کو ہی لے لیجیے۔
جب ایک عورت صحافت کے میدان میں قدم رکھتی ہے تو اسے انٹرٹینمنٹ، ثقافت اور موسم جیسے شعبے کور کرنے کے لیے دی جاتی ہیں جبکہ مردوں کو جرائم، سیاست اور معیشت جیسے ’سنجیدہ اور مشکل‘ شعبے دیے جاتے ہیں۔
یہ رویہ اس غلط تصور پر مبنی ہے کہ انٹرٹینمنٹ، ثقافت اور موسم والے شعبے نیوز کوریج کے حوالے سے آسان ہوتے ہیں اور خواتین انہیں آسانی سے کور کر سکتی ہیں۔
تاہم، اگر کوئی مردان شعبوں میں کام کرے تو اچانک ہی ان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔
ان کی خبریں نمایاں کر کے چھاپی جاتی ہیں۔ ان کے دوست، سینئیر اور جونئیر ان کی خبروں کو دو فٹ لمبی تعریفی پوسٹ کے ساتھ شئیر کرتے ہیں جبکہ خواتین کی اتنی ہی محنت کے ساتھ بنائی گئی خبروں اور پیکجز کو دیکھ کر بس صفحہ سکرول کیا جاتا ہے۔
یہاں مسئلہ صرف تنخواہ کا نہیں بلکہ کام کی اہمیت کا بھی ہے۔ عورت کا کام اکثر کم اہم یا آسان سمجھا جاتا ہے جبکہ وہی کام جب مرد کرتا ہے تو وہ انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔ یہ دوہرا معیار نہ صرف ناانصافی کا باعث بنتا ہے بلکہ خواتین کی پیشہ ورانہ ترقی میں بھی رکاوٹ ڈالتا ہے۔
پاکستان میں موجود قوانین اگرچہ صنفی مساوات کو فروغ دیتے ہیں لیکن ان کا نفاذ انتہائی کمزور ہے۔ خواتین کی اکثریت اپنے حقوق سے ناواقف ہوتی ہیں۔ انہیں مواقع بہت مشکل سے ملتے ہیں۔ پھر وہ جو ہے اسے غنیمت سمجھ کر بس زندگی گزارنے کو ترجیح دیتی ہیں۔
صنفی اجرت کا یہ فرق صرف خواتین کو ہی متاثر نہیں کرتا بلکہ پورے ملک کی معیشت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔
جب خواتین کو کم تنخواہ دی جاتی ہے تو اس کا اثر ان کی معاشی شراکت پر پڑتا ہے جو آگے جا کر پورے ملک کی معیشت کو متاثر کرتی ہے۔
اس صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے پاکستان کو کئی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے عوامی آگاہی بڑھانا از حد ضروری ہے تاکہ خواتین کو اپنے حقوق کا شعور ہو۔
موجودہ قوانین کو مزید مضبوط اور ان کے موثر نفاذ کو یقینی بنایا جائے تاکہ خواتین کو کام کی جگہ پر مساوی تنخواہ مل سکے۔
خواتین کی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کے مواقع بڑھانے سے بھی صنفی اجرت کے فرق کو کم کیا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں خواتین کی شرکت کو فروغ دینا چاہیے تاکہ انہیں زیادہ تنخواہ والے شعبوں میں کام کرنے کے مواقع میسر آ سکیں۔
یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ صنفی مساوات صرف خواتین کے لیے فائدہ مند نہیں بلکہ یہ پورے معاشرے اور ملک کی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ جب تک ہم اپنے معاشرے کے ہر فرد کو مساوی مواقع اور انصاف فراہم نہیں کرتے ہم اپنی مکمل صلاحیت کو بروئے کار نہیں لا سکتے۔
یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔