پاکستان کے صوبہ پنجاب میں غیر رسمی تعلیمی اداروں کے اساتذہ کی دو سال سے زیادہ کی تنخواہوں کی ادائیگیوں پر ان اساتذہ اور صوبائی حکومت کے درمیان تنازع چل رہا ہے۔
غیر رسمی بنیادی تعلیمی کمیونٹی سکولز کے اساتذہ گذشتہ 27 ماہ سے انہیں تنخواہیں نہ ملنے کا الزام عائد کر رہے ہیں، جب کہ پنجاب حکومت اس کو رد کرتے ہوئے کہتی ہے وفاق سے منتقلی کے وقت ان میں سے کئی سکول کام نہیں کر رہے تھے اس لیے ان کے اساتذہ کو معاوضہ ادا کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔
غیر رسمی سکولوں کے اساتذہ نے ان کے ساڑھے بارہ ہزار ماہوار معاوضے کو بڑھا کر اعلان کردہ کم از کم تنخواہ کی حد تک نہ لائے جانے کا بھی گلہ کیا ہے۔
بیسک ایجوکیشن کمیونٹی سکولز کے ٹیچرز کی ضلع ڈیرہ غازی خان میں یونین کے صدر شاہنواز تالپور نے اس حوالے سے انڈٌپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’کل 620 سکول ہیں، جن کے 620 اساتذہ ہیں، جن کے بقایاجات ادا نہیں کیے گئے نہ ہی تنخواہیں بڑھائی جا رہی ہیں۔ ہم نے اس سلسلے میں احتجاج بھی کیا لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔‘
شاہنواز نے مزید بتایا کہ پنجاب میں بیسک ایجوکیشن کمیونٹی سکولز کی تعداد پانچ ہزار سے زیادہ ہے، جن میں پانچ سے چھ لاکھ انتہائی غریب بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
’یہ سنگل ٹیچر نان فارمل سکول ہوتا ہے، جو استاد اپنی مدد آپ کے تحت چلاتے ہیں۔ حکومت اس کے لیے کوئی عمارت یا انفراسٹکچر مہیا نہیں کرتی بلکہ استاد اپنے گھر میں یا کسی بھی دوسری جگہ کا انتظام کر کے بچوں کو پڑھاتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ان تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچے زیادہ تر خانہ بدوش یا دیگر غریب گھروں سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ سکول صوبے کے دور دراز علاقوں میں قائم ہیں، جہاں نرسری سے پانچویں کلاس تک تعلیم دی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’1995 سے کام کرنے والے یہ تعلیمی ادارے ابتدائی طور پر وفاق کے زیر انتظام تھے تاہم 18ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد انہیں صوبوں کے حوالے کر دیا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب کے 5000 سے زیادہ سکول ایک سکیم کے تحت یہاں کے لٹریسی ڈپارٹمنٹ کے ماتحت ہیں۔
شاہنواز نے کہا کہ جب یہ سکول ضم ہوئے تو لٹریسی ڈپارٹمنٹ نے یہ شرط رکھی کہ وہ چیک کرے گا کہ کون سے سکول کام کر رہے ہیں اور کون سے نہیں اور اسی دوران انہوں نے پنجاب کے مختلف اضلاع کے 620 سکولوں کو نان فنکشنل قرار دے دیا۔
انہوں نے بتایا کہ ان 620 سکولوں میں پڑھانے والے اتنے ہی اساتذہ پنجاب کے مختلف شہروں میں پڑھاتے ہیں، جن میں ڈیرہ غازی خان، قصور، میانوالی، لیہ اور دیگر علاقے شامل ہیں۔
’دو سال تک سکولوں کی دو مرتبہ تصدیق کی گئی، جس کے بعد ہمیں فنکشنل قرار دیا گیا۔ لیکن اس دوران 27 ماہ کا عرصہ گزر گیا جس کی نہ ہمیں تنخواہ ملی نہ سکولوں کو کتابیں فراہم کی گئیں۔
’کیا واجبات ادا ہوں گے اور کون کرے گا؟ اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے ڈی جی بی ای سی ایس حمید نیازی سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ سکول یکم جولائی 2021 تک صوبوں کو منتقل کیے گئے اس لیے مذکورہ مدت کے لیے واجبات متعلقہ صوبوں کے ذریعے ہی ادا کیے جائیں گے۔
’وفاقی حکومت نے منتقلی کی تاریخ یعنی یکم جولائی 2021 تک کے تمام واجبات کلیئر کر دیے تھے۔‘
دوسری جانب پنجاب کے سکول ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے وزیر رانا سکندر نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’دو ادارے ہیں ایک بی ای ایس سی اور دوسرا این سی ایچ ڈی جو وفاق کے ادارے تھے لیکن جب 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کے حوالے ہوئے تو میرے خیال میں دونوں اداروں کے سکولوں کی تعداد تقریباً 3000 ہے۔ یہ لوگ تب سے تنخواہیں لے رہے ہیں لیکن کام کچھ نہیں کر رہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ 620 اساتذہ بی ای ایس سی کے تحت ہیں نہ این سی ایچ ڈی کے اور تنخواہ وفاق سے لے رہے ہیں۔
ان کا دعویٰ تھا کہ ان ملازمین کا تعلق صوبائی حکومت سے نہیں ہے۔ ڈائریکٹر جنرل لٹریسی اینڈ نان فارمل بیسک ایجوکیشن پنجاب ڈاکٹر خرم شہزاد نے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ سکولز پنجاب کو مل گئے تھے۔ یہ دو شعبے ہیں ایک بیسک ایجوکیشن کمیونٹی سکولز اور دوسرے این سی ایچ ڈی۔ ان دونوں کے سکول صوبوں کے لٹریسی ڈیپارٹمنٹ کے حوالے ہو گئے تھے۔
ڈاکٹر خرم کے مطابق جب صوبوں کو یہ سکول ملے تو ایک کمیٹی بنائی گئی جس میں ان تعلیمی اداروں کے نمائندے بھی شامل تھے اور لٹریسی ڈپارٹمنٹ کے لوگ بھی تھے۔ ’کمیٹی کا کام ان سکولوں کے دورے کرنا اور کام کرنے والے تعلیمی اداروں کو اڈاپٹ کرنا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ اس میں عوام کا پیسہ ملوث ہے اور جب ہمیں یہ سکول ملے تو ان میں سے بہت سے سکولز ایسے تھے جو فنکشنل نہیں تھے اس کے بعد ہم نے جو سکول فنکشنل تھے ان کا نوٹیفیکیشن جاری کیا۔ ’جو سکول ہم نے نان فنکشنل پائے وہ اپنی شکایات ہمارے پاس لے کر آںے لگے جنہیں کو دور کرنے کے لیے ایک دوسری کمیٹی بنائی گئی جس نے دوبارہ جا کر ان سکولوں کے دورے کیے۔‘
انہوں نے بتایا: ’ہر سکول کا دورہ کیا گیا۔ تھرڈ پارٹی سے بھی متعدد بار چیک کروانے کے بعد جن سکولوں کی تصدیق ہوئی ان کو ہم نے دوبارہ نوٹیفائی کر دیا اور جن کی تصدیق جس دن سے ہوئی ان کے اساتذہ کو اسی دن سے تنخواہیں ملنا شروع ہو گئی تھیں۔‘
انہوں نے اساتذہ کا الزام مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان اساتذہ کو اس وقت تنخواہ مل رہی ہے۔ ’لیکن چھ ماہ یا ایک سال پہلے جو ان کا سٹیٹس تھا کہ وہ نان فنکشنل تھے اور اس دورانیے کی تنخواہ ہم انہیں نہیں دیں گے۔‘ ان اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافے کے حوالے سے ڈی جی لٹریسی اینڈ نان فارمل بیسک ایجوکیشن پنجاب ڈاکٹر خرم شہزاد کا کہنا تھا: ’ان اساتذہ کو ماہانہ معاوضے کے طور پر 12500 روپے ادا کیے جارہے ہیں جسے ہم تنخواہ نہیں کہتے کیونکہ یہ غیر رسمی تربیت ہے۔‘
ڈاکٹر خرم کے مطابق: ’یہ اساتذہ روزانہ صرف چار گھنٹے پڑھاتے ہیں۔ البتہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے ان کا معاوضہ 20 ہزار روپے ماہانہ کرنے کی ہدایت کی ہے لیکن یہ احکامات کابینہ کی منظوری سے مشروط ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ کا یہ اقدام دراصل خواتین کو با اختیار بنانے کی کوشش ہے کیونکہ ہمارے اساتذہ میں 85 فیصد خواتین ہیں۔