مہنگائی امریکی صدور کی تنخواہ پر کیسے اثرانداز ہوتی رہی ہے؟

ایک امریکی صدر مقررہ چار لاکھ ڈالر سالانہ کماتا ہے، جس کی مالیت ہر سال قیمتوں میں اضافے سے کم ہو جاتی ہے۔

16 جون، 2024 کی اس تصویر میں امریکہ صدر جوبائیڈن اپنی انتخابی مہم کے دوران ایک تقریب میں شریک ہیں، پس منظر میں سابق امریکی صدر براک اوباما کو بھی دیکھا جا سکتا ہے(اے ایف پی)

ایسا معلوم پڑتا ہے کہ مہنگائی جو بائیڈن کو صرف سیاسی طور پر ہی نقصان نہیں پہنچا رہی بلکہ یہ ان پر ذاتی طور پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔

جریدے فوربز کے مطابق ایک امریکی صدر مقررہ چار لاکھ ڈالر سالانہ کماتا ہے، جس کی مالیت ہر سال قیمتوں میں اضافے سے کم ہو جاتی ہے۔

مہنگائی میں حالیہ اضافے کے پیش نظر بائیڈن کی تنخواہ کی قوت خرید اس وقت ان کے عہدہ سنبھالنے کے وقت کے مقابلے میں 18 فیصد کم ہے۔

اگر مہنگائی میں اضافہ اپنی موجودہ شرح سے جاری رہا تو فوربز کے اندازوں کے مطابق 2028 تک جو بھی اقتدار میں ہوگا وہ امریکی تاریخ کا بدترین تنخواہ وصول کرنے والا صدر ہوگا۔

مکمل طور پر سمجھنے کے لیے کہ یہ کیسے ہوا، 1700 کی دہائی کے آخر سے شروع کرتے ہیں، جب امریکہ میں کوئی چیف ایگزیکٹو نہیں تھا۔

بادشاہ جارج سوم سے حال ہی میں آزادی پانے کے بعد، بانیوں نے ایک ایسا آئین بنایا جو کسی صدر کو مستقل تخت پر نہیں بٹھاتا تھا، لیکن پھر بھی اسے ہر سہولت دیتا تھا۔

الیگزینڈر ہیملٹن فیڈرلسٹ نمبر 73 میں لکھتے ہیں کہ ’ایگزیکٹو اتھارٹی کی قوت مضبوط بنانے کے لیے تیسرا اہم جزو اس کی مناسب مالی معاونت ہے۔‘

حالیہ دہائیوں میں، صدر کی تنخواہ کی منگائی کے لحاظ سے ایڈجسٹ شدہ قیمت میں کمی ہوئی ہے۔

اس طرح ، جارج واشنگٹن نے 1789 میں 25 ہزار ڈالر سالانہ تنخواہ کے ساتھ عہدہ سنبھالا، جو آج تقریبا چھ لاکھ ڈالر کے برابر ہے۔

یہ تقریبا 100 سالوں تک اتنی ہی رہی، وہ دور جب ڈیفلیشن (قیمتوں میں کمی) تقریبا اتنی ہی عام تھی جتنی انفلیشن (افراط زر)، جس کی وجہ سے صدرِ مملکت کو اس دور کے بیشتر حصے میں کافی زیادہ معاوضہ ملا۔

سوائے 1812 کی جنگ کے وقت، جب جنگی اخراجات اور امریکی بندرگاہوں کی برطانوی ناکہ بندی کی وجہ سے قیمتیں آسمان تک پہنچ گئیں، جس سے چوتھے امریکی صدر جیمز میڈیسن کی تنخواہ کی موجودہ قیمت تقریبا 365،000 ڈالر رہ گئی، جو شاید ہی کسی ایسے صدر کے لیے کافی ہو جسے وائٹ ہاؤس کو گرانے والے فوجیوں سے بھی نمٹنا پڑا ہو۔

ابراہم لنکن کو بھی اسی طرح کی حرکت کا سامنا کرنا پڑا۔ خانہ جنگی کی فنڈنگ کے لیے ان کی انتظامیہ نے پاگلوں کی طرح امریکی ڈالر چھاپے، جس سے ڈالر کی قدر کم ہوئی اور 1865 تک ایماندار ابراہیم لنکن کی 25,000 ڈالر کی تنخواہ کی افراط زر سے ایڈجسٹ شدہ قیمت 850,000 ڈالر سے کم ہو کر 500,000 ڈالر ہو گئی۔

جنگ کے خاتمے کے آٹھ سال بعد، سابق یونین جنرل الیسیس ایس گرانٹ نے کانگریس کی تنخواہوں میں اضافے اور اپنی تنخواہ کو دوگنا کر کے 50،000 ڈالر کرنے کے قانون پر دستخط کیے، جو آج 13 لاکھ ڈالر کے برابر ہے۔

یہ اقدام، جسے ’سیلری گریب ایکٹ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، اتنا غیر مقبول تھا کہ کانگریس نے بعد میں اس کی تنخواہ میں اضافے کو منسوخ کردیا۔ تاہم، صدر کی تنخواہ وہی رہی۔

1909 میں یہ ایک بار پھر بڑھ کر 75 ہزار ڈالر ہوگئی، صدر ولیم ہاورڈ ٹافٹ کی حلف برداری پر، جو امریکی تاریخ کے سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے صدر ہیں۔

اس سال، ٹافٹ نے آج کے لحاظ سے 25 لاکھ ڈالر کمائے۔ ان کے جانشین ووڈرو ولسن اتنے خوش قسمت نہیں تھے کیونکہ ان کی تنخواہ 1920 تک آج کے ڈالروں میں تقریبا 11 لاکھ ڈالر تک گر گئی تھی۔

اس کی وجہ اس بار پہلی عالمی جنگ کے لیے فوجی اخراجات کی وجہ سے افراط زر کا جھٹکا تھا۔

بہت بڑی کساد بازاری کی وجہ سے ملک بھر میں قیمتیں گر گئیں، جس نے ہربرٹ ہوور کی وراثت کو تباہ کردیا لیکن افراط زر کو ایڈجسٹ کرنے کی بنیاد پر ان کی تنخواہ بڑھ گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فرینکلن ڈیلانو روزویلٹ کا جب 1945 میں انتقال ہوا تو ان کی تنخواہ 75,000 ڈالر آج کے حساب سے تقریباً 13 لاکھ ڈالر تھی۔

دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد معیشت نے ترقی کی اور اسی طرح افراط زر میں بھی اضافہ ہوا اور دہائیوں میں پہلی بار افراط زر کے لحاظ سے صدارتی تنخواہ 10 لاکھ ڈالر سے کم ہو گئی۔

ہیری ٹرومین پھر بھی بہتر رہے، کانگریس نے 25 ہزار ڈالر کا اضافہ کر دیا، جس نے 1949 میں صدارتی تنخواہ کو بڑھا کر 100،000 ڈالر سالانہ کردیا (آج 10 لاکھ ڈالر سے زیادہ کے برابر) اور 50 ہزار ڈالر کے اخراجات الاؤنس کی مد میں دیے گئے۔

مسوری کے ایک کسان ٹرومین نے بعد میں مقننہ کو خط لکھ کر اس اضافے پر شکریہ ادا کیا اور ایگزیکٹو برانچ میں بھی اسی طرح کی اضافے کے بارے میں دلیل دی۔

انہوں نے لکھا کہ ’بہترین قوانین کو خراب انتظامیہ سے تباہ کیا جا سکتا ہے۔‘

کانگریس نے 1969 میں رچرڈ نکسن کے وائٹ ہاؤس میں آنے کے بعد صدر کی تنخواہ کو ایک بار پھر دو لاکھ ڈالر تک بڑھا دیا۔

ان کے نائب صدر جیرالڈ فورڈ، جنہوں نے نکسن کے استعفے کے بعد عہدہ سنبھالا تھا- اور فورڈ کے جانشین جمی کارٹر آج کے لحاظ سے 10 لاکھ ڈالر سے زیادہ کمانے والے آخری صدر تھے۔

1970 کی دہائی کے اواخر میں سٹیگ فلیشن سے صدر کی حقیقی تنخواہ میں بڑی کمی ہوئی، اور اس کے بعد سے مسلسل، نسبتاً کم افراط زر اس میں مسلسل کمی کر رہی ہے۔

2001، بل کلنٹن نے مواخذے کی جنگ کی بدولت قانونی قرضوں کے بوجھ تلے دفتر چھوڑ دیا۔ تاہم، ان کے جانشین کے لیے، صدارتی تنخواہ دوگنی ہو کر چار لاکھ ڈالر ہو گئی۔

اس کے بعد سے کسی نے بھی صدارتی تنخواہ میں تبدیلی نہیں کی اور حالیہ برسوں میں افراط زر ہدف سے زیادہ ہونے کی وجہ سے اگلے صدر کے معاوضے کی قدر میں کمی کا امکان ہے جو ممکنہ طور پر 2028 تک کلنٹن کی تاریخ کی کم ترین سطح سے کم ہو سکتی ہے۔

اگر ٹرمپ اس سال جیت جاتے ہیں، تو ایسا لگتا ہے کہ وہ اس میں اضافہ نہیں کرنے والے– کیوں کہ، ان کے پاس اربوں روپے ہیں، اور باقاعدگی سے اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ انہوں نے پہلی بار صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہوئے اپنی تنخواہ عطیہ کی تھی۔

جو بائیڈن کے بارے میں زیادہ امکان ہے کہ وہ تنخواہوں میں کچھ اضافہ کریں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ