موسیقی کی ڈیجیٹل سروس سپاٹی فائی 50 کی دہائی کے بعد کے پاکستانی لیجنڈ گلوکاروں اور فنکاروں کے کام کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کی غرض سے ’سپاٹی فائی آئیکون پاکستان‘ کے نام سے نیا پروگرام شروع کر رہا ہے۔
سپاٹی فائی کے لیبل اینڈ پارٹنرشپ منیجر برائے پاکستان، سری لنکا اور بنگلہ دیش خان ایف ایم نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ سپاٹی فائی آئیکون پروگرام پاکستان آن پلیٹ فارم اور آف لائن پروموشن کے ذریعے مقامی موسیقی کے آئیکونز کو فروغ دینے اور کیٹلاگ کی کھپت کو آگے بڑھانے پر مرکوز ہے۔
خان ایف ایم نے بتایا کہ ’سپاٹی فائی آئیکون‘ ایک ایسا نام ہے جو صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ سپاٹی فائی کی دنیا میں بھی نیا ہے۔ سپاٹی فائی کے زیادہ تر پروگرامز نئے گانوں اور فنکاروں پر فوکس کرتے ہیں لیکن ہم پہلی مرتبہ یہ پروگرام لا رہے ہیں جس کا مرکزی فوکس لیجنڈری فنکار ہیں۔‘
خان ایف ایم کا مزید کہنا تھا: ’یہ وہ فنکار ہیں جنہوں نے 50 سے 90 کی دہائیوں کے دوران میوزک انڈسٹری میں ایک بڑا کردار کیا اس لیے یہ پروگرام ان کو منسوب ہے اور ان کے لیے ایک ٹریبیوٹ ہے۔‘
خان ایف نے مختلف گلوکاروں کے نام بتاتے ہوئے کہا کہ ’آئی کون پروگرام استاد نصرت فتح علی خان، میڈم نور جہان، غلام علی، مہدی حسن، شازیہ منظور، نیرہ نور اور بہت سے ایسے گلوکاروں کے میوزک کو ہائی لائٹ کرے گا اور ان کی زندگی کے وہ واقعات جن میں ان کے میوزک نے ایک بڑا اثر چھوڑا۔ یہ کہانیاں ہم آگے بتانے جا رہے ہیں۔
’مثال کے طور پر آپ غلام علی کو دیکھ لیں۔ وہ ایک ایسے گلوکار ہیں، جن کا غزل سے گہرا تعلق ہے۔ ان کا سال بہ سال سٹریمنگ کا نمبر 82 فیصد بڑھا۔ اسی طرح مہدی حسن کے سٹریمز ہر سال 144 فیصد بڑھی۔ ہمیں اس ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو سننے والے آج بھی موجود ہیں، بلکہ ان میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ کسی ایک نسل کے سننے والے نہیں بلکہ پرانی نسلوں کے علاوہ آج کی جنریشن زی بھی ان کو سن رہی ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’کافی آئیکون گلوکار ہمارے ساتھ اس وقت موجود ہیں اور اپنا میوزک پروڈیوس کر رہے ہیں۔ ان میں انہوں نے عابدہ پروین کے گانے ’تو جھوم‘ کا ذکر کیا جسے بہت زیادہ سنا جا رہا ہے۔
’اسی طرح آج کے گلوکاروں میں عاصم اظہر نے حال ہی میں اپنی ایلبم جاری کی جس میں استاد نصرت فتح علی خان کے نمونے استعمال کیے گئے ہیں۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ طلال قریشی جیسے گلوکار جب میوزک بناتے ہیں تو وہ کافی پرانے گانوں کے نمونے استعمال کرتے ہیں۔ ’اس لیے ہمیں نئی نسل کے گلوکاروں کے کام میں دکھائی دیتا ہے کہ وہ پرانے گلوکاروں سے متاثر ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پرانے گلوکار ایسے لوگ تھے جن کے زمانے میں سپاٹی فائی اور انٹرنیٹ موجود نہیں تھے۔ ہم نے یہ نوٹس کیا کہ جنریشن زی ان گلوکاروں کو اہمیت دیتی ہے اور انہیں سنتی ہے۔ لیکن ہم انہیں مزید بڑے سکیل پر سامنے لانا چاہتے ہیں اور اسی لیے آئیکون کا پروگرام لانچ کیا جا رہا ہے۔‘
چیلنجز
اس سوال پر کہ فنکاروں کو پروموٹ کرنے میں کن چیلنجز کا سامنا ہو گا؟ خان ایف ایم کا کہنا تھا کہ چیلنجز سے زیادہ ہمیں مواقع پر غور کرنا چاہیے۔
’پاکستان کی تاریخ میں مختلف گلوکاروں کو ٹریبیوٹ پیش کیا جاتا ہے جیسے کبھی نازیہ حسن یا کبھی نصرت فتح علی خان لیکن یہ ہم چاہ رہے ہیں کہ ایسا پروگرام لانچ کریں، جو کئی سالوں تک رہے اور جب لوگوں کو سننا ہو کہ 50 سے 90 کی دہائیوں کے گلوکار کون تھے تو وہ اس لیے آسانی سے آئیکون پلے لسٹ کی طرف جا سکیں۔‘
چیلنج کے حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا: ’میں صرف ایک ہی چیز کہوں گا لوگوں سے کہ اگر آپ کو پاکستان کی میوزک کی تاریخ سننا ہے تو آئیکون کی پلے لسٹ ضرور سننیں اور یہ اس لیے اہم ہے کہ ہمارے پاس کوئی اور ایسی جگہ نہیں جہاں ان گلوکاروں کو ایک ساتھ ہائی لائٹ کیا گیا ہو۔‘
ایک دوسرے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’آئیکون کی پلے لسٹ صرف ایک گلوکار پر مرکوز نہیں ہو گی بلکہ ماضی میں گانے والوں کے نام بھی اس میں شامل کیے جائیں گے اور منصوبہ یہی ہے کہ جتنے بھی ان دہائیوں کے گلوکار ہیں ان کے کام کو سامنے لایا جائے اور ان کے گانے بھی پلے لسٹ میں شامل ہوں گے۔‘
پاکستان میں پیسے دے کر گانےسننے والوں کی تعداد باقی ممالک کی نسبت کیا ہے؟
اس سوال کے جواب میں خان ایف ایم کا کہنا تھا کہ ’اگر ہم باقی ممالک سے موازنہ کریں تو یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ زیادہ ہیں یا کم لیکن یہ تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
’میرے خیال میں سپاٹیفائی جیسے پلیٹ فارمز پر گانے سننے والے تو سبھی ہیں لیکن آئیکون پروگرام کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ پرانا یا لیگسی میوزک ہے اس کو سننے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور اسی چیز کو ہم اس پروگرام کے ذریعے اسٹیبلش کرنا چاہ رہے ہیں اور یہ پروگرام سب کو ان فنکاروں کا میوزک سننے کا موقع دے گا۔‘
خان ایف ایم نے بتایا کہ یہ پروگرام 21 ستمبر کراچی میں لانچ کیا جائے گا اور اس لانچ کی تقریب کا نام ’ہاؤس آف آئیکون‘ رکھا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’میرا نہیں خیال کہ میوزک کا ایسا کوئی پروگرام پاکستاں میں منعقد کیا گیا ہو گا کیونکہ اس لانچ میں ہم لوگ ایک نمائش کا اہتمام بھی کر رہے ہیں یا آپ اسے میوزک کا عجائب گھر بھی کہہ سکتے ہیں، جہاں پورے پاکستان کی میوزک کی تاریخ کو دیکھا جا سکے گا۔ کس دہائی میں کون سے گلوکار تھے؟ انہوں نے کون س گانے گائے؟ ان کے کون سے ہٹس تھے؟ یہ سب اس میں شامل ہو گا۔‘
انہوں کا کہنا تھا کہ آئیکون کے لیے امبیسیڈرز بھی مقرر کیے جائیں گے جب کہ اس پروگرام میں ایک ایک لیجنڈری آرٹسٹ پر فوکس کیا جائے گا۔ ایک منٹ کی فلم کے ذریعے ان کی کی کہانی بیان کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ آنے والے وقت میں ان لیجنڈ گلوکاروں کے اہل خانہ اور رشتہ داروں کو بھی شامل کیا جائے گا۔ ’جب ہم مہدی حسن کی کہانی بتائیں گے تو ہم چاہیں گے کہ ان کے خاندان کے لوگ اس میں شامل ہوں اور ہمیں معلوم ہو کہ وہ کس طرح کا میوزک کر رہے ہیں اور صرف خاندان کے لوگ ہی نہیں بلکہ وہ جو ان کے ہمراہ انسٹرومنٹس بجاتے تھے سب کو اس میں شامل کریں۔ لیکن یہ یک طرفہ نہیں ہو سکتا بلکہ ان کے خاندان کے لوگوں کو بھی ہمارے ساتھ تعاون کرنا ہو گا اور مجھے امید ہے کہ وہ وقت آئے گا کہ یہ سب ممکن ہو سکے گا۔‘
سپاٹی فائی انتظامیہ کی جانب سے انڈپینڈنٹ اردو کو فراہم کیے گئے ڈیٹا کے مطابق:
60، 70 اور 80 کی دہائیوں کے مشہور پاکستانی فنکاروں کی مقبولیت میں ایک قابل ذکر بحالی کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔
مہدی حسن سلسلہ وار 144.5 فیصد سالانہ ترقی کے ساتھ اس سلسلے میں قیادت کرتے ہیں۔
اسی طرح غلام علی نے بھی متاثر کن 82.4 فیصد سالانہ اضافہ دیکھا ہے۔
سپاٹی فائی کے ڈیٹا کے مطابق سال ہا سال ماہانہ فعال سامعین (عالمی) 2023-2024 کے درمیان کچھ مشہور فنکاروں کی ترقی مندرجہ ذیل ہے۔
مہدی حسن 142 فیصد
غلام علی 85 فیصد
سجاد علی، مصطفی زاہد، حدیقہ کیانی اور نوری 75 فیصد
نور جہاں 65 فیصد
شازیہ منظور 45 فیصد
ابرارالحق 38 فیصد
عابدہ پروین 34 فیصد
سپاٹی فائی کے اعداد و شمار کے مطابق یہ گلوکار نوجوان نسل کو اپنی طرف متوجہ کر رہے ہیں، جس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ 24 سے 34 سال کی عمر کے لوگ نور جہاں، غلام علی اور نصرت فتح علی خان کے مداحوں کا ایک اہم حصہ بناتے ہیں، جب کہ نور جہاں کے سننے والوں میں سے 50 فیصد 18-27 کی عمر کے لوگ ہیں۔