سب کچھ اس قدر تیزی سے ہو رہا ہے کہ سمجھنے اور سوچنے کا وقت ہی نہیں اور نہ ہی اس چیز کا خیال کہ نتیجہ کیا ہو گا۔ تقسیم اور ریخت کے اس عمل میں کس کے حصے میں کیا آئے گا اور انجام کیا ہو گا شاید اس بارے میں بھی نہ ذہن تیار ہے اور نہ ہی جمع تفریق کا وقت۔
خواجہ آصف نبض شناس سینیئر سیاست دان ہیں۔ اب سے کچھ ہفتے قبل ہمارے ایک پروگرام میں انہوں اس شبہے کا اظہار کیا تھا کہ ’اسلام آباد کے چند حلقوں میں چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کہ اکتوبر میں قاضی فائز عیسیٰ کی تبدیلی کے ساتھ ہی سپریم کورٹ انتخابی عُذرداری سُنے گی، نتیجتاً انتخابات کالعدم ہونے اور حکومت کی رخصتی کا امکان ہو سکتا ہے۔‘
اس خدشے کے ببانگ دُہل اظہار کے اہم مقاصد میں سے ایک تمام حلقوں کو ذہنی طور پر تیار کرنا اور سپریم کورٹ کی ممکنہ تبدیلی کے نتائج سے متعلق بروقت متنبہ کرنا تھا۔ شاید یہ اظہار غلط نہ تھا مگر اس کے بعد ہونے والی تبدیلیوں نے اس پر مہر ثبت کر دی۔
حکومت نے درپیش ممکنہ ’خطرے‘ کو بھانپتے ہوئے یا پہلے ہائبرڈ رجیم کے ’تسلسل فارمولے‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے ’نامکمل ایجنڈے‘ کی تکمیل کے ’خیال‘ کو تصویر دینے کی کوشش کی مگر مخالف قوتیں جو کسی ڈائریکٹر کی فلم کا نامکمل پراجیکٹ ہیں، مسلسل ٹف ٹائم دینے میں مصروف ہیں۔ یہ لڑائی جس جگہ پہنچ چکی ہے وہاں محبت اور جنگ میں سب ’جائز‘ قرار دیا جا چکا ہے۔
حکومت نے قاضی فائز عیسیٰ کو روکنے اور منصور علی شاہ کے چیف جسٹس بننے میں رکاوٹ ڈالنے کا جو طریقہ اور جواز اختیار کیا ہے اسے اپنے عمل سے نہ صرف متنازع بنا دیا ہے بلکہ سپریم کورٹ میں پہلے سے موجود تقسیم کو مزید وسیع کر دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پارلیمان آئین اور قانون بنا سکتی ہے مگر جس عجلت سے ان سب مراحل پر کام کیا گیا اس نے خود پارلیمان پر ہی سوال کھڑے کر دیے ہیں۔
آئینی ترمیم سے پہلے کے معاملات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ کی مدت ملازمت میں توسیع کی چہ میگوئیوں کے ساتھ ہی سپریم کورٹ کے 15 میں سے آٹھ جج صاحبان کی جانب سے مخصوص نشستوں کے معاملے پر فیصلہ متنازع صورت اختیار کر گیا کہ جس میں اپیل سنی اتحاد کی تھی اور نوازا تحریک انصاف کو گیا۔
فیصلے میں الیکشن کمیشن کے اختیارات میں ازخود ترمیم کر کے آزاد اراکین کی جانب سے تین کے بجائے 15 دن کی رعایت بھی متنازع اور سپریم کورٹ کی حدود سے تجاوز قرار دی جا رہی ہے۔ یہ سب بہرحال کسی تصویر میں رنگ بھرنے سے روکنے کے لیے ہی تھا اور یوں عدالت نے اس تمام ’اہتمام‘ پر پانی پھیر دیا جو ’نظام‘ تشکیل دے رہا تھا۔
عین اُس وقت جب پارلیمان کا اجلاس ’کسی‘ خیال کو ’سوچ‘ رہا تھا سپریم کورٹ کے آٹھ جج صاحبان نے ’بروقت مگر بے وقت وضاحت‘ دے کر تعبیر روک دی اور 41 آزاد اراکین کو تحریک انصاف سے وابستہ قرار دے دیا۔ یہ بن مانگی مراد حکومت کی نمبر گیم میں ایسی آڑے آئی کہ نتیجتاً سپیکر کو آگے آنا پڑا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ لڑائی اب پارلیمنٹ اور انتظامیہ کے درمیان شکوہ جواب شکوہ کی صورت جاری ہے اور انجام اکتوبر میں کسی ایک صورت ہو گا۔ کیا ہم سمجھیں کہ یہ آخری مرحلے کی لڑائی ہے۔
دوسری طرف آئینی ترامیم کا پیکج بغیر تیاری جلد بازی میں پارلیمنٹ میں لانے سے حکومت کو شرمندگی اٹھانا پڑی مگر مولانا فضل الرحمن نے جس طرح اس صورت حال میں اپنے سیاسی قد میں اضافہ کیا اس کا اندازہ یوں لگایے کہ پارلیمنٹ کی کل 13 نشستوں پر براجمان جے یو آئی ایف تحریک انصاف کی 90 نشستوں پر بھاری ہے۔
مولانا کی جانب سے ’آدھی ہاں‘ پر پارلیمنٹ کااجلاس بلانے والے حکمران اتحاد کے پاس اب اُمید کی ایک ہی کرن ہے کہ وہ تحریک انصاف کی ’آزاد‘ نشستوں کو اپنا بنا لے اور عددی برتری کے ساتھ آئینی عدالت کا قیام عمل میں لائے۔ ابھی اس کی ایک اور کوشش کی جائے گی اور اب کی بار شاید مولانا پر تکیہ نہ کیا جائے۔ تاہم مولانا آئینی عدالت کے حق میں ہیں اور قاضی صاحب کی توسیع کے خلاف۔
دوسری جانب آئینی ترمیم کی منظوری کی صورت وکلا تنظیموں کے میدان عمل میں آنے کی بھی تیاری ہے۔ پروسیجر ایکٹ میں ترمیمی آرڈیننس نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اور ادارہ جاتی محاذ آرائی کو دو چند کر دیا ہے۔ اس کا نتیجہ سپریم کورٹ کے اندر بحران کی صورت نکل سکتا ہے۔۔ کیا ہم 90 کی دہائی کی طرح ایک عمارت میں دو سپریم کورٹس دیکھیں گے یا چند استعفے بھی متوقع ہوسکتے ہیں۔
بظاہر ارتقائی عمل کی اس لڑائی میں آئینی بریک ڈاؤن کا خطرہ موجود ہے لیکن ایک سادہ سا سوال بہرحال پوچھنا ضروری ہے کہ کیا کوئی آئین موجود ہے؟ انتظار کیجیے، اکتوبر آ رہا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔