سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی پارلیمان میں مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’الیکشن کمیشن ملک میں جمہوری عمل کا ضامن اور حکومت کا چوتھا ستون ہے، الیکشن کمیشن فروری 2024 میں اپنا یہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہا۔‘
پیر کو جاری کیا جانے والا تفصیلی فیصلہ 70 صفحات پر مشتمل ہے جسے جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ’الیکشن کمیشن بنیادی فریق مخالف کے طور پر کیس لڑتا رہا، الیکشن کمیشن کا بنیادی کام صاف شفاف انتخابات کرانا ہے۔‘
فیصلے کے مطابق: ’الیکشن میں بڑا سٹیک عوام کا ہوتا ہے، انتخابی تنازعہ بنیادی طور پر دیگر سول تنازعات سے مختلف ہوتا ہے، پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے۔ الیکشن کمیشن کے یکم مارچ کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔
’پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہیں، عوام کی خواہش اور جمہوریت کے لیے شفاف انتخابات ضروری ہیں، تحریک انصاف قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حقدار ہے لہذا الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدواروں کو نوٹیفائی کرے، عوام کا ووٹ جمہوری گورننس کا اہم جز ہے، آئین عوام کو اپنا جمہوری راستہ بنانے کا اختیار دیتا ہے۔‘
عدالت نے تفصیلی فیصلے میں لکھا کہ ’پارلیمنٹ میں متنازعہ طور پر مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے نوٹیفیکیشن چھ مئی 2024 سے منسوخ کیے جاتے ہیں۔ پشاور ہائی کورٹ کو پاکستان تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے درخواست پر فیصلہ کرنے کی بجائے آئین کے آرٹیکل 218 اور الیکشن ایکٹ کی دفعات چار اور آٹھ کے تحت اس معاملے کو واپس الیکشن کمیشن کے پاس بھجوانا چاہیئے تھا۔‘
سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو ریلیف دینے پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’پی ٹی آئی کی کیس میں فریق بننے کی درخواست ہمارے سامنے موجود تھی۔ یہ سمجھنے کی بہت کوشش کی کہ سیاسی جماعتوں کے نظام پر مبنی پارلیمانی جمہوریت میں اتنے آزاد امیدوار کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟ اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا، پی ٹی آئی کا یہ دعویٰ کہ آزاد امیدوار بھی پی ٹی آئی کے امیدوار تھے، پی ٹی آئی کے مطابق ووٹرز نے ان کے پی ٹی آئی امیدوار ہونے کی وجہ سے انہیں ووٹ دیا۔‘
تفصیلی فیصلے میں آٹھ ججوں نے دو ججوں کے اختلافی نوٹ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے 12 جولائی کے اکثریتی فیصلے کو آئین سے متصادم قرار دیا، جس انداز میں دو ججز نے اکثریتی فیصلے پر اختلاف کا اظہار کیا وہ مناسب نہیں۔‘
سپریم کورٹ کے دو ججز کی 12 جولائی کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دینے کے ریمارکس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر افغان کا عمل سپریم کورٹ کے ججز کے منصب کے منافی ہے۔‘
تحریک انصاف جب فریق نہیں تھی تو ریلیف کیسے ملا؟
قانونی و سیاسی حلقوں میں 12 جولائی 2024 کے فیصلے پر اس حوالے سے کافی تنقید کی گئی تھی کہ پاکستان تحریک انصاف جو کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں درخواست گزار ہی نہیں تھی اس کو ریلیف کیسے دیا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس معاملے پر تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’اس مقدمے میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے فریق بننے کی درخواست دائر کی گئی تھی۔ عام معمول کے مطابق اس طرح کی درخواست پہلے دائر ہوتی ہے اور پہلے اس کے فریق بننے سے متعلق فیصلہ کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ کوئی عام نوعیت کا مقدمہ نہیں بلکہ آئین، بنیادی حقوق اور لوگوں کے اپنے حکمران منتخب کرنے کے حوالے سے ایک انتہائی اہم مقدمہ ہے، جو ان کے لیے قانون سازی کرتے اور ریاستی انتظام چلاتے ہیں۔
’پی ٹی آئی ہو، سنی اتحاد کونسل یا کوئی اور سیاسی جماعت، سپریم کورٹ کے لیے سب سے اہم کام آرٹیکل (2)17 اور 19 کے تحت لوگوں کے حق رائے دہی کا تحفظ کرنا ہے۔ اس لیے اس دلیل میں کوئی وزن نہیں کہ سپریم کورٹ نے مروجہ قانونی طریقہ کار سے ہٹ کر پی ٹی آئی کی فریق بننے کی درخواست پر فیصلے سے قبل ہی اسے ریلیٖف دے دیا۔‘
عدالت نے مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی فیصلہ اردو زبان میں بھی جاری کرنے کا حکم دیا اور مزید کہا گیا کہ اردو ترجمہ کو کیس ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے اور ویب سائٹ پر بھی اپ لوڈ کریں۔
’یہ عدالت متعدد مقدمات میں کہہ چکی مکمل انصاف کرتے ہوئے عدالت کسی تکنیکی اصول کی پابند نہیں۔
فیصلے میں مزید لکھا گیا ہے کہ ’رول 94 آئین اور الیکشن ایکٹ 2017 سے متصادم ہے، رول 94 کے تحت مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے طریقہ کار سے متعلق ہے، انتخابی رولز الیکشن ایکٹ کے مطابق ہی بنائے جا سکتے ہیں، انتخابی رولز میں ایسی چیز شامل نہیں کی جا سکتی جو الیکشن ایکٹ میں موجود نہ ہو، رول 94 کی وضاحت میں لکھا گیا ہے کہ سیاسی جماعت اسے تصور کیا جائے گا جس کے پاس انتخابی نشان ہو، رول 94 کی وضاحت آئین کے آرٹیکل 51(6) اور الیکشن ایکٹ کی شق 106 سے متصادم ہے، انتخابی نشان نہ ہونے پر مخصوص نشستیں نہ دیا جانا الیکشن کمیشن کی طرف سے اضافی سزا ہے۔‘
بلے کا نشان واپس لینے کے فیصلے پر رائے
فیصلے میں کہا گیا کہ ’سپریم کورٹ بلے کے نشان والے کیس میں پارٹی کے آئینی حقوق واضح کرتی تو کنفیوژن پیدا ہی نہ ہوتی، الیکشن کمیشن نے بھی اپنے حکم نامہ میں پی ٹی آئی کے آئینی حقوق واضح نہیں کیے، عدالت اور الیکشن کمشن کو مدنظر رکھنا چاہیے تھا کہ انتخابی شیڈیول جاری ہو چکا ہے، واضح قانون کے بغیر کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی، آئین میں دیئے گئے حقوق کو کم کرنے یا قدغن لگانے والے قوانین کا جائزہ تنگ نظری سے ہی لیا جا سکتا ہے، جمہوریت میں انفرادی یا اجتماعی حقوق میں کم سے کم مداخلت یقینی بنانی چاہیے، انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے کی سزا انتخابی نشان واپس لینے سے زیادہ کچھ نہیں، انتخابی نشان واپس لئے جانے کا مطلب یہ نہیں کہ سیاسی جماعت کے آئینی حقوق ختم ہو گئے۔‘
مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کا مختصر فیصلہ کیا تھا؟
سپریم کورٹ کے 13 ججز میں سے آٹھ نے فیصلے کی حمایت جب کہ پانچ نے اختلاف کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے 12 جولائی 2024 کو مخصوص نشستوں سے متعلق پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے فیصلے میں کہا کہ ’پاکستان تحریکِ انصاف مخصوص نشستوں کی حق دار ہے۔‘
سپریم کورٹ نے مختصر فیصلے میں مزید کہا کہ ’انتخابی نشان ختم ہونے سے کسی سیاسی جماعت کا الیکشن میں حصہ لینے کا حق ختم نہیں ہوتا۔ پی ٹی آئی 15 روز میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے فہرست جمع کرائے۔‘
ججوں کے تفصیلی اختلافی نوٹ میں کیا کہا گیا؟
سپریم کورٹ کے دو ججوں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم افغان نے اقلیتی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’ثابت شدہ حقیقت ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے بطور سیاسی جماعت عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا، حتی کہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے بھی آزاد حیثیت میں انتخاب لڑا۔ جبکہ پی ٹی آئی موجودہ کیس میں فریق نہیں تھی، اسے ریلیف دینے کے لیے آرٹیکل 175 اور 185 میں تفویض دائرہ اختیار سے باہر جانا ہو گا۔ پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کے لیے آئین کے آرٹیکل 51، آرٹیکل 63 اور آرٹیکل 106 کو معطل کرنا ہو گا۔‘
دونوں ججز نے اپنے اختلافی نوٹ میں مزید لکھا ہے کہ ’کسی عدالتی کارروائی میں یہ اعتراض نہیں اٹھایا گیا کہ اراکین نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار نہیں کی، تحریکِ انصاف الیکشن کمیشن اور نہ ہی ہائی کورٹ میں فریق تھی جبکہ سپریم کورٹ میں فیصلہ جاری ہونے تک بھی پی ٹی آئی فریق نہیں تھی۔‘
جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال مندوخیل کے اختلافی نوٹ میں کہا گیا تھا کہ ’پی ٹی آئی یا اس کے کسی رہنما نے آزاد رکن قرار دینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ کہیں چیلنج نہیں کیا، تاہم اس حقیقت کے پیش نظر درخواستیں انتخابی کارروائی کا تسلسل ہے اس لیے عدالت کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد قرار دینے کا معاملہ دیکھ سکتی ہے، جن امیدواروں نے کاغذات نامزدگی واپس لینے والے دن تک کوئی اور ڈیکلیریشن جمع نہیں کرایا وہ پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کا حصہ ہیں،
لیکشن کمیشن پی ٹی آئی کو دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ شامل کر کے مخصوص نشستوں کی تقسیم کرے۔‘