ججز وضاحت پر چیف جسٹس کا رجسٹرار کو خط، مخصوص نشستوں کا معاملہ پیچیدہ؟

قانونی ماہرین کے خیال میں مخصوص نشستوں کا معاملہ سنگین بن چکا ہے، جس کا فوری طور پر حل نکالنا ناگزیر ہے۔

اسلام آباد میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کا بیرونی منظر (انڈپینڈنٹ اردو) 

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر آٹھ ججوں کی وضاحتی آرڈر کے حوالے سے رجسٹرار کو خط لکھ کر جواب طلب کیا ہے۔

الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں پر فل بینچ کے فیصلے کے خلاف سات اگست کو نظر ثانی دائر کی تھی، لیکن اس درخواست کے مقرر ہوئے بغیر ہی سپریم کورٹ کے آٹھ ججوں نے 14 ستمبر کو وضاحت جاری کر دی۔

چیف جسٹس نے ’نظرثانی درخواست مقرر ہوئے بغیر ججوں کی وضاحت پر‘ رجسٹرار سپریم کورٹ سے ایک خط میں نو سوال پوچھے ہیں۔

چیف جسٹس کے رجسٹرار سے سوالات

* الیکشن کمیشن اور پاکستان تحریک انصاف نے وضاحت کی درخواست کب دائر کی؟

* تحریک انصاف اور الیکشن کمیشن کی درخواستیں پریکٹس پروسیجر کمیٹی میں کیوں نہیں بھیجی گئی؟

* متفرق درخواستیں کاز لسٹ کے بغیر کیسے سماعت کے لیے مقرر ہوئیں؟

* کیا رجسٹرار آفس نے متعلقہ فریقین اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیا؟ کس کمرہ عدالت یا چیمبر میں درخواستوں کو سنا گیا؟

* درخواستوں پر فیصلہ سنانے کے لیے کاز لسٹ کیوں جاری نہیں کی گئی؟

* آرڈر کو سنانے کے لیے کمرہ عدالت میں فکس کیوں نہ کیا گیا؟

* اوریجنل فائل اور آرڈر سپریم کورٹ رجسٹرار میں جمع ہوئے بغیر آرڈر کیسے ویب سائٹ پر اپ لوڈ ہوا؟

* آرڈر کو سپریم کورٹ ویب سائٹس پر اپ لوڈ کرنے کا آرڈر کس نے دیا؟

ہائی کورٹ کے سابق جج شاہ خاور نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ معاملہ اب بہت زیادہ پیچیدہ ہو چکا ہے جس کا آئینی حل نکالنا بہت ضروری ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ماضی میں ایسی مثال سپریم کورٹ میں نہیں کہ چیف جسٹس کے علم میں ہی نہیں اور وضاحتیں ویب سائٹس پر اپ لوڈ ہو جائیں اور نہ ایسا ہوا کہ سماعت کے لیے کیس مقرر ہوئے بغیر جج اپنی رائے جاری کر دے۔

’کم از کم چیمبر میں سماعت ہو تو پھر بھی فیصلہ جاری ہو سکتا ہے لیکن فریق کو نوٹس کرنا اور سننا لازم ہے۔‘

کیا ماضی میں بھی ایسا ہوا؟

اس سوال کے جواب میں شاہ خاور نے کہا کہ ’ایسی نظیر اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں نے قائم کی تھی، جس میں چیف جسٹس کے دستخط موجود نہیں تھے اور دو ججوں نے اپنا فیصلہ جاری کر دیا تھا، جو بعد میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ویب سائٹ سے ہٹوایا تھا۔‘

ہائی کورٹ کی خبریں کور کرنے والے صحافی اویس یوسف زئی نے کہا کہ ’ٹیریان وائٹ کیس میں چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی لارجر بینچ تھا، جس میں دیگر دو جج جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس ارباب طاہر تھے۔

’جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس ارباب نے درخواست کو ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کرنے کا کہا تھا اور بینچ کے سربراہ کے دستخط کے بغیر ہی فیصلہ ویب سائٹ پر اپ لوڈ کر دیا گیا تھا۔

’بعد میں اس وقت کے چیف جسٹس نے کہا تھا کہ بینچ کے سربراہ کے دستخط کے بغیر جو فیصلہ ویب سائٹ پر جاری ہوا وہ فیصلہ نہیں بلکہ دو ججوں کی رائے ہے کیونکہ اختلاف رائے کی صورت میں بھی بینچ کے تمام اراکین کے دستخط ہونا ضروری ہیں۔‘

اویس یوسف زئی نے مزید کہا کہ ’چیف جسٹس نے معاملہ متنازع ہونے پر نیا بینچ بنا دیا تھا، لیکن اس کے باوجود فیصلہ ویب سائٹ پر جاری ہوا تو پھر اس معاملے کی تحقیقات بھی ہوئیں کہ یہ ویب سائٹ پر کیسے اپ لوڈ ہوا۔‘

حل کیا ہے؟

اس سوال کے جواب میں سابق جج شاہ خاور نے کہا کہ ’اس پیچیدگی سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ آرٹیکل 186 کے تحت صدر پاکستان سپریم کورٹ کو خط لکھیں اور صورت حال پر ایڈوائس طلب کریں، جس پر سپریم کورٹ ان آٹھ ججوں کے بغیر بینچ تشکیل دے اور ابہام دور کرے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’آٹھ ججوں کو اس بینچ میں اس لیے نہیں رکھا جا سکتا کیونکہ وضاحت جاری کر کے وہ اس معاملے میں فریق بن چکے ہیں، جن کی وجہ سے ابہام پیدا ہوا۔‘

پی ٹی آئی کا سپریم کورٹ سے رجوع

چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کی دائر درخواست میں سپیکر قومی اسمبلی کے الیکشن کمیشن کو خط پر وضاحت کی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ عدالت واضح کرے کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا اطلاق 12 جولائی کے آرڈر پر نہیں۔ 

درخواست میں کہا گیا ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی، سپیکر پنجاب اسمبلی کے الیکشن کمیشن کو خطوط درست قانونی پوزیشن واضح نہیں کرتے، دونوں اسمبلیوں کے سپیکروں کے خطوط کا 12 جولائی کے مختصر فیصلے پر کوئی اثر نہیں پڑتا، دونوں اسمبلیوں کے سپیکروں کے خطوط الیکشن کمیشن کی جانب سے نظر انداز کیے جانے چاہیے اور 14 ستمبر کے وضاحتی حکم نامے کی روشنی میں الیکشن کمیشن 12 جولائی کے مختصر فیصلے پر عمل درآمد کا پابند ہے۔

آٹھ ججوں نے کیا وضاحت جاری کی تھی؟

مخصوص نشستوں کے کیس میں اکثریتی فیصلہ دینے والے آٹھ ججوں نے 14 ستمبر کو اپنی وضاحت جاری کی تھی جو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ بھی ہوئی۔

وضاحت میں کہا گیا کہ 12 جولائی کے فیصلے میں کوئی ابہام نہیں، سپریم کورٹ کا 12 جولائی کا شارٹ آرڈر بہت واضح ہے اور الیکشن کمیشن نے اس حکم کو غیر ضروری طور پر پیچیدہ بنایا ہے۔

وضاحتی بیان میں حکم دیا گیا کہ فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے کے سنگین نتائج ہوں گے۔

وضاحتی بیان کے مطابق بیرسٹر گوہر کو چیئرمین پی ٹی آئی اور عمر ایوب کو سیکریٹری جنرل تسلیم کیا جا چکا ہے،لہذا حاصل کردہ نشست فوراً اس سیاسی جماعت کی حاصل کردہ نشست تصور کی جائے گی، کوئی بعد کا عمل اس وقت کے متعلقہ تاریخوں پرہونے والے معاہدے تبدیل نہیں کر سکتا اور طےشدہ حیثیت کےمطابق یہ کامیاب امیدوار پی ٹی آئی کے امیدوار تھے۔

مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کا فیصلہ

سپریم  کورٹ کے 13 ججز میں سے آٹھ نے فیصلے کی حمایت جب کہ پانچ نے اختلاف کیا تھا۔

سپریم کورٹ نے گذشتہ ماہ 12 جولائی کو مخصوص نشستوں سے متعلق پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے فیصلے میں کہا تھا کہ ’پاکستان تحریکِ انصاف مخصوص نشستوں کی حق دار ہے۔‘

سپریم کورٹ نے مختصر فیصلے میں مزید کہا تھا کہ ’انتخابی نشان ختم ہونے سے کسی سیاسی جماعت کا الیکشن میں حصہ لینے کا حق ختم نہیں ہو جاتا۔ پی ٹی آئی 15 روز میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے فہرست جمع کرائے۔‘

ججوں کے تفصیلی اختلافی نوٹ میں کیا کہا گیا؟

سپریم کورٹ کے دو ججوں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم افغان نے اقلیتی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’ثابت شدہ حقیقت ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے بطور سیاسی جماعت عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا، حتی کہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے بھی آزاد حیثیت میں انتخاب لڑا، جب کہ پی ٹی آئی موجودہ کیس میں فریق نہیں تھی اور اسے ریلیف دینے کے لیے آرٹیکل 175 اور 185 میں تفویض دائرہ اختیار سے باہر جانا ہو گا۔ پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کے لیے آئین کے آرٹیکل 51، آرٹیکل 63 اور آرٹیکل 106 کو معطل کرنا ہو گا۔‘

اختلافی نوٹ میں مزید لکھا گیا کہ ’کسی عدالتی کارروائی میں یہ اعتراض نہیں اٹھایا گیا کہ اراکین نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار نہیں کی، تحریکِ انصاف الیکشن کمیشن اور نہ ہی ہائی کورٹ میں فریق تھی جبکہ سپریم کورٹ میں فیصلہ جاری ہونے تک بھی پی ٹی آئی فریق نہیں تھی۔‘

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال مندوخیل کے اختلافی نوٹ میں کہا گیا تھا کہ ’پی ٹی آئی یا اس کے کسی رہنما نے آزاد رکن قرار دینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ کہیں چیلنج نہیں کیا، تاہم اس حقیقت کے پیش نظر درخواستیں انتخابی کاروائی کا تسلسل ہے اس لیے عدالت کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد قرار دینے کا معاملہ دیکھ سکتی ہے، جن امیدواروں نے کاغذات نامزدگی واپس لینے والے دن تک کوئی اور ڈیکلیریشن جمع نہیں کرایا وہ پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کا حصہ ہیں، الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کو دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ شامل کر کے مخصوص نشستوں کی تقسیم کرے۔‘

مزید کہا گیا کہ ’ایسے امیدوار جنہوں نے 24 دسمبر، 2023 تک کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ تھی اور انہوں نے خود کو آزاد یا کسی دوسری جماعت کے ساتھ وابستگی کا سرٹیفیکیٹ نہیں دیا وہ آزاد تصور ہوں گے۔‘

الیکشن کمیشن اور مسلم لیگ ن کی فیصلے کی اپیل

الیکشن کمیشن نے 41 آزاد ارکان کے معاملہ پر سپریم کورٹ سے 25 جولائی کو رجوع کیا اور رجسٹرار سپریم کورٹ کو فیصلہ پر وضاحت کی درخواست جمع کرائی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس درخواست میں کہا گیا کہ 41 آزاد ارکان نے پارٹی وابستگی  کی دستاویزات جمع کرا دیئے ہیں، دستاویزات جمع کرانے والے ارکان نے لکھا کہ وابستگی تحریک انصاف کنفرم کرے گی، الیکشن کمیشن ریکارڈ میں تحریک انصاف کا کوئی پارٹی اسٹریکچر نہیں ہے، تحریک انصاف بنیادی ڈھانچہ کی عدم موجودگی میں آزاد ارکان کی پارٹی وابستگی کون کنفرم کرےگا، بیرسٹر گوہر علی خان الیکشن کمیشن ریکارڈ میں پارٹی چیئرمین نہیں ہیں، سپریم کورٹ اس معاملہ پر رہنمائی کرے۔‘

جبکہ مسلم لیگ ن نے بھی سپریم کورٹ کی جانب سے مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو دینے کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواست میں سپریم کورٹ کے 12 جولائی کے فیصلے پر حکم امتناع جاری کرنے کی استدعا کی تھی۔ 

مسلم لیگ ن کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’مخصوص نشستوں کے حوالے سے فیصلے میں سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو ایک سیاسی جماعت تسلیم کیا ہے جبکہ سنی اتحاد کونسل کی درخواست میں ایسی کوئی استدعا ہی نہیں کی گئی تھی، الیکشن کمیشن آف پاکستان، پشاور ہائی کورٹ اور بعد میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے جو درخواست تھی اس میں صرف یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ آیا سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار ہے یا نہیں۔

’سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی دو الگ الگ سیاسی جماعتیں ہیں، جبکہ سپریم کورٹ کے حکمنامے سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے سپریم کورٹ نے دونوں جماعتوں کو ایک ہی تصور کر لیا، سپریم کورٹ نے کافی نکات کو سنا لیکن مختصر فیصلے میں کئی اہم نکات پر خاموشی ہے۔‘

مخصوص نشستوں کا معاملہ

قومی اسمبلی میں اس وقت 13 جماعتیں ہیں، جن میں سے آٹھ حکمران اتحاد میں شامل ہیں۔ حکمران اتحاد کی جماعتوں کی مجموعی نشستیں 208 بنتی ہیں، جو دوتہائی اکثریت کے عدد 224 سے کم ہیں۔ آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد مخصوص نشستیں باقی تمام جماعتوں میں تقسیم ہوئیں تو حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت مل گئی لیکن سپریم کورٹ کے فیصلہ معطل کرنے کے بعد تعداد دوبارہ 208 ہو گئی ہے، جس کے باعث حکومت تو قائم رہے گی لیکن دو تہائی اکثریت کے بغیر۔

سنی اتحاد کی قومی و صوبائی اسمبلیوں کی کل مخصوص نشستوں کی تعداد 78 ہے، جس میں سے 23 قومی اسمبلی جبکہ باقی صوبائی اسمبلیوں کی ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان