الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2024 منگل کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔
قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے بھی منگل کو الیکشن ایکٹ ترمیمی بل منظور کر لیا ہے۔
چئیرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے اجلاس کی کارروائی کے دوران کہا کہ بل پر اپوزیشن اور حکومتی دونوں اطراف سے اراکین کو نقطہ نظر پیش کرنے کا موقع دوں گا لیکن ساتھ ہی بل منظوری کر لیے پیش کر دیا۔
بل منظور ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر نے بات کرنے کی کوشش کی تو فاروق ایچ نائیک نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ بل منظوری کے بعد اس پر بحث نہیں کر سکتے۔ علی ظفر کی تقریر کے دوران حکومتی ارکان نے کورم کی نشاندہی کر دی جس کے بعد اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔
سینیٹ میں منظوری سے قبل قومی اسمبلی میں سپیکر سردار ایاز صادق کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں مسلم لیگ ن کے رکن اور نیشنل پارلیمانی ٹاسک فورس کے کنوینئر بلال اظہر کیانی نے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل پیش کیا۔
بل پیش کیے جانے کے موقعے پر اپوزیشن نے ’نامنظور، نامنظور‘ کے نعرے لگائے اور ہنگامہ آرائی کی۔
ترمیمی بل میں کیا ہے؟
انڈپینڈنٹ اردو کو دستیاب ترمیمی بل کے مسودے کے مطابق انتخابی نشان ملنے سے قبل اگر کسی فرد نے ریٹرننگ افسر کے سامنے پارٹی کے ساتھ وابستگی ظاہر نہیں کی تو اسے آزاد رکن کے طور پر سمجھا جائے گا اور کسی سیاسی جماعت کے رکن کے طور پر تصور نہیں کیا جائے گا۔
بل کے مطابق اگر کوئی سیاسی جماعت مخصوص نشستوں سے متعلق فہرست مقررہ وقت (تین روز) میں فراہم کرنے میں ناکام ہو تو بعد میں وہ مخصوص نشستوں کے کوٹے کی اہل نہیں ہوگی۔
بل میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی آزاد رکن ایک مرتبہ کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کر لے تو وہ اس فیصلے کو واپس نہیں لے سکتا اور اس کے بیان حلفی کی تنسیخ نہیں کی جا سکتی۔
اس ترمیمی بل کے مسودے میں حکومتی بینچز نے آئین پاکستان کے آرٹیکل 51 اور آرٹیکل 106 کے حوالہ جات دیے ہیں، جہاں مخصوص نشستوں کے بارے آئینی و قانونی حدود کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔
بل کے اغراض و مقاصد میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 51 اور 106 میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کی ایلوکیشن کا طریقہ کار بتایا گیا ہے۔ جیتے ہوئے امیدواروں کے نام آفیشل گزٹ میں شائع ہونے کے بعد آزاد امیدوار یا امیدوار تین روز کے اندر کسی بھی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں۔
اغراض و مقاصد کے مطابق الیکشن ایکٹ 2017 جیتے ہوئے امیدواروں کو اپنی مرضی سے کسی سیاسی جماعت میں شامل ہونے کا اختیار دیتا ہے۔ نہ دستور اور نہ ہی الیکشن ایکٹ2017 کامیاب امیدواران کو کسی سیاسی جماعت میں شامل ہونے کی سہولت فراہم کرتا ہے بشرطیکہ وہ پہلے کسی سیاسی جماعت میں شامل ہوچکے ہوں۔
بل پیش کیے جانے کے دوران کیا ہوا؟
قومی اسمبلی اجلاس کے دوران ترمیمی بل جیسے ہی ایوان میں پیش کیا گیا تو اپوزیشن اراکین نے احتجاج کرنا شروع کر دیا۔ جہاں ایک جانب اپوزیشن جماعتوں کے اراکین نے نعرے بازی کرنے کا آغاز کیا، وہیں دوسری جانب انہوں نے سپیکر ڈائس کا گھیراؤ بھی کر لیا۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے بلال اظہر کیانی کی جانب سے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل زیر غور لانے کی تحریک پیش کی گئی، جسے ایوان نے منظور کر لیا۔ اس دوران بھی اپوزیشن بل کی مسلسل مخالفت کرتی نظر آئی۔
اجلاس کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے علی محمد خان نے ترمیمی بل پر ترمیم پیش کی، جس کی وزیر قانون اعظم نزیر تارڑ نے مخالفت کر دی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رکن اسمبلی علی محمد خان نے سوال اٹھایا: ’کیا پارلیمنٹ کا یہ کام ہے کہ سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے سپریم کورٹ پر حملہ کرے گی؟ قانون سازی کر کے آپ مجھے میرے جائز حق سے محروم نہیں کر سکتے۔ مخصوص نشستوں کا حق ہمیں سپریم کورٹ سے مل چکا ہے۔ ہمیں کیسے اس حق سےمحروم کیا جا سکتا ہے؟‘
انہوں نے مزید کہا: ’کیا ان 39 کے لیے پی ٹی آئی حلال ہے اور 41 کے لیے حرام ہے؟ ہم احتجاج کر رہے ہیں، ہم اس بل کو مسترد کرتے ہیں۔ قانون سازی کریں لیکن یہ پاکستان کے مفاد میں ہونی چاہیے۔‘
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ قانون سازی آئین کی روح کے مطابق ہے۔ علی محمد خان نے کہا کہ یہ قانون سازی ہمارا راستہ روکنے کے لیے ہے۔ انہوں نے حلف نامہ جمع کروایا کہ ہمارا تعلق سنی اتحاد کونسل سے ہے۔‘
اعظم نذیر تارڑ کا مزید کہنا تھا: ’ایسی جماعت جس نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا اسے نشستیں نہیں دی جا سکتیں۔ ہم کسی جرم میں ترمیم کرنے نہیں جا رہے۔‘
پی ٹی آئی کا الیکشن ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان
علی محمد خان نے کہا کہ اس قانون سازی کے ذریعے حکومت سپریم کورٹ پر حملہ آور ہو رہی ہے، ہم اس قانون کے خلاف سپریم کورٹ جائیں گے، عدالت اسے رد کرے گی۔
اس بیان پر وفاقی وزیر قانون نے جواب دیا کہ قانون سازی آئین کی روح کے عین مطابق ہے اور یہ پارلیمنٹ کا اختیار ہے۔ ان کے 81 افراد نے حلف نامہ داخل کروایا تھا کہ ان کا تعلق سنی اتحاد کونسل سے ہے، پی ٹی آئی سے نہیں۔ آج یہ اپنے حلف ناموں سے مکر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ’دو ججوں کے اختلافی نوٹ میں تمام وجوہات درج ہیں۔ پی ٹی آئی نے خود بھی یہ نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ اپوزیشن حقائق مسخ نہ کرے، ہم قانون کو واضح کر رہے ہیں۔‘
بعد ازاں قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے علی محمد خان کی ترمیم بھی مسترد کر دی۔
اس کے بعد الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کی شق وار منظوری کا عمل جاری رہا اور اسے کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔
بعد ازاں مسلم لیگ ن کے رہنما بلال اظہر کیانی نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی نے آج ترمیمی بل پاس کیا ہے، جس میں تین وہی شقیں ہیں جو پہلے سے آئین میں درج ہیں لیکن ہم نے ان کی وضاحت کی ہے تاکہ ابہام ختم ہو۔
ان کے بقول: ’نئے قانون کے تحت کوئی امیدوار پارلیمنٹ میں پارٹی سرٹیفیکیٹ جمع نہیں کرواتا تو اسے آزاد امیدوار تصور کیا جائے گا۔‘
مسلم لیگ ن کے رہنما نے مزید کہا کہ ’مخصوص نشستیں اسی جماعت کو دی جائیں گی، جس نے انتخاب لڑا ہو۔‘
اسی طرح بلال اظہر کیانی کے مطابق: ’کوئی بھی امیدوار کسی پارٹی کو جوائن کر لے تو وہ واپس نہیں جا سکتا۔‘
سینیٹ سے منظوری کے بعد بل دستخط کے لیے صدرِ پاکستان کو بھجوایا جائے گا اور اس طرح الیکشن ایکٹ میں ترمیمی بل قانون بن جائے گا۔
عمومی رائے یہ ہے کہ الیکشن ایکٹ ترمیمی بل مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد روکنے یا اس میں تاخیر کے لیے لایا گیا ہے۔
سپریم کورٹ نے 12 جولائی 2024 کو اپنے اکثریتی فیصلے میں پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے اور الیکشن کمیشن میں نئی فہرستیں جمع کروانے کا کہا تھا۔
تاہم پارلیمنٹ کی جانب سے الیکشن ایکٹ میں کی گئی ترامیم کے بعد نئی فہرستیں جمع نہیں کروائی جا سکیں گی اور ایکٹ بننے کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد مشکل ہو سکتا ہے، کیونکہ دونوں ایک دوسرے کے متصادم ہیں۔