الیکشنز ایکٹ ترمیم کے بعد مخصوص نشستیں تبدیل نہیں ہو سکتیں: سپیکر کا الیکشن کمشنر کو خط

سپیکر قومی اسمبلی کے خط کے متن کے مطابق الیکشنز ایکٹ میں ترمیم کے بعد مخصوص نشستیں تبدیل نہیں کی جا سکتیں۔

قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق چار ستمبر 2024 کو اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے (قومی اسمبلی ایکس اکاؤنٹ)

سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مخصوص نشستوں سے متعلق خط لکھا ہے جس میں انہیں الیکشنز ایکٹ 2017 میں ترمیم  کے حوالے سے آگاہ کیا گیا ہے۔

سپیکر قومی اسمبلی کے خط کے متن کے مطابق الیکشنز ایکٹ میں ترمیم کے بعد مخصوص نشستیں تبدیل نہیں کی جا سکتیں۔

سپیکر نے اس حوالے سے تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن ایکٹ میں تبدیلی ہو چکی ہے جس کا اطلاق ماضی سے ہوتا ہے۔

چیف الیکشن کمشنر اور تمام ممبران کو بھجوائی گئی خط کی کاپی میں کہا گیا ہے کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد سپریم  کورٹ کے فیصلے پر عمل در آمد نہیں ہو سکتا۔

’آپ کی توجہ کے لیے الیکشن ایکٹ اس وقت نافذ العمل ہے۔ الیکشن کمیشن پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون پر عمل درآمد کرے۔‘

خط میں الیکشن کمیشن کو ’جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے اصولوں پر عمل‘ کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔

اس سے قبل سات اگست کو الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواست دائر کی تھی۔

اس درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی  آئی) کو عدالتی فیصلے میں ریلیف دیا گیا جبکہ یہ کیس میں پارٹی نہیں تھی اور آزاد اراکین نے بھی سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کیا۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ عدالتی فیصلہ میں کچھ ایسے حقائق کو مانا گیا جو کبھی عدالتی ریکارڈ پر نہیں تھے اور نہ پی ٹی آئی کے مخصوص نشستوں کے امیدواروں نے کبھی دعوی کیا۔

’80 ارکان نے سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا جنہوں نے اپنے شمولیت کے حلفیہ ڈیکلریشن جمع کروائے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس درخواست کے مطابق، ’چونکہ سنی اتحاد کونسل نے عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا اور نہ مخصوص نشستوں کی فہرست جمع کروائی۔ 41 اراکین کا دوبارہ پارٹی وابستگی کا موقع فراہم کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔‘

الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ ’سپریم کورٹ نے فیصلے میں آئین و قانون کے آرٹیکلز و شقوں کو نظر انداز کیا اور 12 جولائی کا فیصلہ عدالتی دائرہ اختیار سے تجاوز کیا۔‘

واضح رہے 12 جولائی کو سپریم کورٹ نے الیکشن کمشن اور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا تھا جبکہ پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کا حقدار بھی قرار دیا تھا۔

ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے پشاور ہائی کورٹ اور رواں برس یکم مارچ کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا۔ عدالت نے مخصوص نشستیں حکومت کو دینے کا فیصلہ کالعدم دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئین کے خلاف تھا۔

سپریم کورٹ کے آٹھ اور پانچ کے اکثریتی فیصلے کے مطابق: ’پی ٹی آئی سیاسی جماعت ہے اور رہے گی، انتخابی نشان کسی سیاسی جماعت کو الیکشن لڑنے سے نہیں روک سکتا۔ الیکشن کمیشن نے 80 اراکین اسمبلی کی فہرست پیش کی جن میں سے 39 اراکین کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا۔‘

عدالت نے کہا کہ اس فیصلے کا اطلاق قومی اسمبلی اور تمام صوبائی اسمبلیوں پر ہوگا۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا میں بھی مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دی جائیں جبکہ جماعت کے منتخب امیدواروں کو کسی اور جماعت سے منسلک یا آزاد امیدوار تصور نہ کیا جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست