آئینی عدالت میں ججز کی عمر کی شرط شاید متنازع ہو جائے: بلاول

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ مجوزہ آئینی ترامیم میں ججز کی عمر کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کا متفق ہونا ضروری ہے۔

بلاول بھٹو زرداری 24 ستمبر 2024 کو سندھ ہائی کورٹ بار سے خطاب کر رہے تھے (پاکستان پیپلز پارٹی/ فیس بک)

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے منگل کو کہا ہے کہ مجوزہ آئینی ترمیم میں آئینی عدالت اور دیگر عدالتوں کی ججز کی عمر کے بارے میں اتفاق رائے پیدا نہیں ہو سکا ہے۔

سندھ ہائی کورٹ بار سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ’جہاں تک ججز کی عمر کا سوال ہے تو میرا خیال آپ کی سوچ سے ملتا جلتا ہے، یقیناً اس پر اتفاق رائے پیدا کرنا ضروری ہے۔‘

بلاول بھٹو نے کہا کہ ’ہر پارٹی کا اپنا اپنا موقف ہے لیکن میری اپنی پارٹی کا موقف یہ ہے کہ خاص طور پر جو آئینی عدالت بننے جا رہی ہے اس میں ججز کی عمر کی شرط شاید متنازع ہو جائے۔

’لیکن مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں کا حق ہے جن کی تجویر یہ ہے کہ ہم مجموعی طور پر عمر میں اضافہ کریں نہ صرف اس آئینی عدالت کے لیے بلکہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز کے لیے بھی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’جمعیت علما اسلام کا موقف تھا کہ موجودہ عمر برقرار رکھی جائے لیکن میری ذاتی تجویز تھی کہ جہاں تک کم از کم عمر کی حد ہے اسے اصل حد یعنی 40 سال تک لے کر آئیں اور جہاں تک آئینی عدالت کی بات ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں عمر کی کوئی شرط ڈالنی ہی نہیں چاہیے۔

’اس لیے ہم نے درمیانی اور غیر جانبدارانہ حل یہ نکالا کہ جیسے ہی آئینی عدالت بننے اس کے لیے آپ عہدے کی مدت استعمال کریں اور عمر میں توسیع کا نہ سوچیں اور عہدے کی مدت کے لیے اتفاق پیدا کرنا پڑے گا۔ دیکھتے ہیں کہ آخری اتفاق رائے میں عمر کے بارے میں کیا فیصلہ کیا جاتا ہے۔‘

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ آئین سازی اور قانون سازی عدلیہ کے ذریعے نہیں ہوسکتی اور مجوزہ آئینی ترامیم کے تحت آئینی عدالت بنا کر رہیں گے۔

بلاول کے بقول: ’عدالتیں آئین سازی اور قانون سازی نہیں کر سکتیں، 19 ویں آئینی ترمیم سپریم کورٹ کی دھمکی کی وجہ سے لانا پڑی مگر اب ہر صورت میثاق جمہوریت کے مطابق عدالتی اصلاحات لا کر رہیں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ مجوزہ ترمیم کے ذریعے آئینی عدالت بنا کر رہیں گے اور یہ اس لیے ضروری ہے تاکہ آئندہ کسی اور وزیر اعظم کو تختہ دار پر نہ لٹکایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ 18 ویں ترمیم میں ججوں کے تقرر کا وہ طریقہ بدلنا پڑا جو پوری دنیا میں رائج ہے جیسا کہ امریکہ میں پارلیمان ججز کے تقرر کا فیصلہ کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں آج تک مارشل لا نہیں لگا۔ 

ان کے بقول ’ہمیں ایسی قانون سازی کرنی چاہیے جو کسی کے حق میں ہو اور نہ ہی کسی کے خلاف۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ججز بائی دا ججز اینڈ فار دا ججز‘ والا فارمولا اب نہیں چلے بلکہ ججوں کی تقرری کا فیصلہ اپنے نمائندوں کے ذریعے عوام کا ہی ہونا چاہیے۔

ان کے بقول: ’ہمیں 19ویں ترمیم سپریم کورٹ کی دھمکی کی وجہ سے لانا پڑی جنہوں نے کہا تھا کہ اگر 19ویں ترمیم نہ کی گئی تو 18ویں ترمیم کو اٹھا کر پھینک دیں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’قانون سازی، آئین سازی عدالت کےذریعے نہیں ہوسکتی، آج عدالت اپنی ذمہ داری پوری کرنےمیں ناکام ہوچکی۔ آئینی عدالت اس لیے بنائیں گے تاکہ عوام کوانصاف مل سکے اس لیے آئینی وفاقی عدالت ضروری اورمجبوری ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ’ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ کس طریقہ سے ہمارے ججز فوجی آمروں کو آئین شکنی کی اجازت دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ دس، دس سال جمہوریت اور آئین کو بھول جاتے ہیں اور ملک کا سارا کنٹرول ایک آمر کو دیا جاتا ہے۔‘

انہوں  نے مزید کہا کہ ماضی میں آئین کو ایک کاغذ کا ٹکرا سمجھ کر پھاڑا گیا اور اس سے افسوس ناک بات کہ ججز نے آمروں کو آئین میں ترمیم کرنے کی اجازت دی۔

چیئرمین پیپلز پارٹی کے بقول: ’ہمیں کہا جاتا تھا کہ آپ اتنے کرپٹ ہیں کہ آپ پر آئین اور قانون لاگو نہیں ہوتا، پاکستان کا جمہوری نظام ایسا ہے کہ ہم صرف ایک پی سی او جج برداشت کرسکتے ہیں، جب بھی کسی جج نے پی سی او کا حلف لیا تب تب آئین کو اور جمہوریت کو مسئلہ رہا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے جمہوریت کی بحال کے لیے نسلوں کی قربانیاں دی تاکہ عوام کو طاقت ملے اور وہ پارلیمان میں ایسے نمائندے بھیجیں اور ان کی مرضی کا قانون بنے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’میں تو اس خاندان، جماعت سے تعلق رکھتاہوں جس نے ملک کو آئین دیا، ہماری تاریخ کچھ ایسی ہے کہ ہم نے دیکھا کہ کیسے 1973 کے آئین کو ایک آنکھ کی لرزش اور ہونٹوں کی جنبش سے اڑا دیا جاتا ہے۔‘

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ’شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے میثاق جمہوریت پر دستخط کر کے یہ طے کیا تھا کہ اگر ہم نے پاکستان کا نظام ٹھیک اور جمہوریت کو بحال کرنا ہے۔ اس لیے اب بھی عوام کے مسائل حل کرنے ہیں تو میثاق جمہوریت جیسے معاہدوں کو لاگو کرنا ہوگا۔‘

بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان میں عدالتی نظام ٹوٹ چکا ہے، عدالتوں میں ہزاروں مقدمات زیر التوا ہیں اور مجھے انصاف کے حصول کے لیے 45 سال انتظار کرنا پڑا۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے شہریوں کو فوری انصاف ملے اور کسی صوبے کے درمیان کوئی فرق نہ رہے تو پھر وفاقی آئینی ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی عدالت میں ہر صوبہ کی برابر کی نمائندگی ہوگی، وفاقی عدالت کا چیف جسٹس روٹیشن پر ہوگا اور ہر صوبہ کو اپنے چیف جسٹس کی نمائندگی کرنے کا موقع ملے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست