یہ ابھی ستمبر ہی ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ اپنی موجودہ صدارتی مہم کے دوران دو قاتلانہ حملوں میں بال بال بچ چکے ہیں۔ کسی کو یہ گمان نہیں کہ یہ آخری ہو گا۔ سیکرٹ سروس نے ایک غیر معمولی اقدام اٹھاتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنا گالف کھیلنا کم کریں یا کم از کم دوبارہ گالف کھیلنے سے پہلے انہیں مزید وسائل جمع کرنے کی اجازت دیں۔
سیکریٹ سروس جیسی تنظیم کے لیے، جو صدور کو کیئف اور بغداد جیسے مقامات پر لے جاتی ہے اور ہمیشہ مکمل کامیابی کے ساتھ اپنا مشن پورا کرنے کا عزم رکھتی ہے، یہ رعایت بہت زیادہ شرمناک ہے۔ فعال جمہوریتوں میں صدارتی امیدوار گولف کھیلنے جا سکتے ہیں، بغیر اس فکر کے کہ انہیں قتل کر دیا جائے گا۔
امریکہ میں بڑھتی ہوئی سیاسی تشدد کی لہر نے خطرے کی انتہائی حد عبور کر لی ہے اور یہ واضح نہیں کہ حالات دوبارہ ٹھیک ہو سکتے ہیں یا نہیں۔
کسی فائرنگ کے بعد سیکرٹ سروس ایک فطری قربانی کا بکرا سمجھی جاتی ہے۔ ٹرمپ پر پہلے قاتلانہ حملے کے بعد، خفیہ سروس کی سربراہ کمبرلی چیٹل کو کانگریس میں سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا اور پھر انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔
ان کی ملازمت کو صلیب پر چڑھانا محض ایک رسمی عمل کے سوا کچھ نہیں تھا۔ یہ اچھا اور صحیح ہے کہ جو بھی سیکرٹ سروس جیسے اداروں کو چلاتے ہیں، جب وہ غلطی کریں تو انہیں ذمہ داری لینی چاہیے۔ سر کٹنے چاہییں، لیکن ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ کمبرلی چیٹل کا الزام لینا اس بات کی نشانی ہے کہ وہ اصل مسئلہ ہیں۔
کانگریس ارکان، ڈیموکریٹس اور رپبلکنز دونوں نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا لیکن وہ کسی مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش نہیں کر رہی تھیں۔ وہ امریکی سیاست دانوں کو بڑھتے ہوئے تشدد سے بچانے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھا رہی تھیں۔
جب میں 2022 میں شائع ہونے والی کتاب ’دا نیکسٹ سول وار‘ کے لیے تحقیق کر رہا تھا تو میں نے ایک گمنام سیکرٹ سروس ایجنٹ سے بات کی، اور تب بھی انہیں خطرات کی ایک غیر معمولی لہر کا سامنا تھا۔
سیکرٹ سروس صدارتی امیدواروں کو درپیش معتبر خطرات کے ارادوں، وسائل اور مواقع کی جانچ پڑتال کرتی ہے۔ پہلے یہ دھمکیاں خطوط یا فون کالز کے ذریعے آتی تھیں۔
انٹرنیٹ نے نفرت کی گنجائش میں زبردست اضافہ کر دیا ہے۔ امریکہ میں سیاسی امیدواروں کو نقصان پہنچانے کی خواہش ظاہر کرنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ کسی بھی ایجنسی، چاہے اس کی مالی امداد یا لگن کی سطح کتنی ہی کیوں نہ ہو، اسے کنٹرول نہیں کر سکتی۔
معتبر خطرات کا بہت بڑا حصہ اس بحران کا صرف ایک حصہ ہے۔ خطرے کی نوعیت بدل گئی ہے۔ انٹرنیٹ پر نظر آنے والی غصے کی لہر کو کرمنالوجسٹ ’سٹوکاسٹک دہشت گردی‘ کہتے ہیں اور منظم سیاسی گروپوں کے کام کی نسبت اس کا دفاع کرنا بہت زیادہ مشکل ہے، جن کے مخصوص مقاصد اور باقاعدہ درجہ بندیاں ہیں۔
کبھی کبھی، اس قسم کی دہشت گردی کو ’لون وولف‘ دہشت گردی کہا جاتا ہے، لیکن یہ اصطلاح درست نہیں ہے۔ ’لون وولف‘ یہ اشارہ کرتا ہے کہ تشدد ایک فرد واحد کی منقسم روح سے جنم لیتا ہے، لیکن سٹوکاسٹک دہشت گردی بیمار نیٹ ورکس کا نتیجہ ہے، نہ کہ صرف افراد کا۔
نفرت، خوف اور حقارت جو امریکی سیاست کو چلاتی ہیں، وہ پرتشدد افراد میں جمع ہوتی ہیں، جو تشدد کے واقعات انجام دیتے ہیں۔ قاتل ایک خراب نظام کا نتیجہ ہیں۔
اور اس وقت امریکی سیاست میں نفرت، خوف اور حقارت کے دائرے کو کم نہ سمجھا جائے۔ رپبلکن اور ڈیموکریٹس بالکل مختلف دنیاؤں میں رہتے ہیں، جن کی بنیادی قدریں ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ 1960 میں صرف چار فیصد ڈیموکریٹس اور چار فیصد رپبلکنز نے کہا تھا کہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے بچے دوسری پارٹی کے رکن سے شادی کریں۔
سال 2010 تک آدھے رپبلکن اور تقریباً ایک تہائی ڈیموکریٹس نے دو جماعتی خاندان کو ناپسندیدہ سمجھا۔ اس وقت، ایک چوتھائی امریکی اس بیان سے اتفاق کرتے ہیں کہ ’امریکی وطن پرستوں کو ملک بچانے کے لیے تشدد کا سہارا لینا پڑ سکتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چاہے آپ رپبلکنز سے پوچھیں یا ڈیموکریٹس سے، تناسب میں زیادہ فرق نہیں آتا۔ لہذا وہ قاتل جو کہیں سے بھی نمودار ہوتے ہیں، درحقیقت ایک گہرے اور وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی نفرت سے نکلتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگ مسلح اور خطرناک ہیں۔
آج امریکہ میں 50 کروڑ آتشی اسلحہ موجود ہے اور صرف 60 لاکھ سے تھوڑا زیادہ ہی رجسٹرڈ ہے۔ گولیوں کی تعداد معلوم نہیں، لیکن صرف ملکی استعمال سالانہ 12 ارب گولیوں کا ہے۔ سیکرٹ سروس ایک سادہ لیکن سخت حقیقت کا سامنا کر رہی ہے۔ وسیع نفرت کا بہت سے ہتھیاروں کے ساتھ ملاپ ہے۔ نتائج ناگزیر ہیں۔
ٹرمپ کے خلاف حالیہ حملوں میں ایک نئی، تاریک روش سامنے آئی ہے۔ سازشوں اور تشدد کی خواہش، جس کی ہم عموماً دائیں جانب سے توقع کرتے ہیں، اب بائیں جانب بھی ظاہر ہونے لگی ہے۔
سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر اس بات کے دعوے بھرے ہوئے تھے کہ پہلی قتل کی کوشش ’فالس فلیگ‘ آپریشن تھا، یہ دعویٰ ایسے ہی ہے جیسے براک اوباما کے دور میں سکول میں فائرنگ کے بعد کنزرویٹو ٹاک ریڈیو پر سننے کو ملتا تھا۔
ایک حالیہ سروے میں پتہ چلا کہ سات فیصد امریکیوں کا ماننا ہے کہ ٹرمپ کو دوبارہ صدارت میں لانے کے لیے تشدد کا استعمال کیا جانا چاہیے، جبکہ 10 فیصد نے یہ کہا کہ ’ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر بننے سے روکنے کے لیے طاقت کا استعمال جائز ہے۔‘
دورِ حاضر کے انتہا پسند دائیں بازو کے افراد کی روایتی کہانیاں، جو خود کو سماج سے کٹے ہوئے اور اجنبی محسوس کرتے ہیں، انٹرنیٹ کی فرضی دنیاؤں میں گم ہو جاتے ہیں، اب مکمل طور پر دو جماعتی ہو چکے ہیں۔ دونوں ممکنہ قاتل اسی زمرے میں آتے ہیں۔
امریکی صدارت ہمیشہ ایک خطرناک ذمے داری رہی ہے۔ 45 میں سے چار صدور کو قتل کیا جا چکا ہے جو کہ جنگ میں مرنے والے سپاہیوں کی نسبت بہت زیادہ شرح ہے۔ مزید 13 صدور قاتلانہ حملوں میں بچے ہیں۔
اس کا موازنہ دوسرے ممالک سے کریں: آخری برطانوی وزیراعظم جنہں قتل کیا گیا تھا وہ سپینسر پرسیول تھے، جو 1812 میں مارے گئے۔ آسٹریلیا کی تاریخ میں صرف تین سیاسی قتل کی کوششیں ہوئی ہیں اور کینیڈا میں صرف ایک۔
ٹرمپ نے کسی طرح خود پر ہونے والے قاتلانہ حملے کو فخر میں تبدیل کر دیا۔ انہوں نے پچھلے ہفتے دعویٰ کیا: ’صرف بااثر صدور پر حملے کیے جاتے ہیں،‘ (ٹرمپ کے بہت سے دعوؤں کی طرح یہ بھی سچ نہیں ہے۔ کوئی بھی ولیم میک کینلی کو بااثر نہیں سمجھے گا۔) ’
انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ایک برڈی (گولف سکور) کی کوشش کر رہے تھے جب سکیورٹی سروس نے قتل کی کوشش کو ناکام بنایا۔ وہ اس شاٹ کو گنوانے پر بہت مایوس ہوئے۔
’دا نیکسٹ سول وار‘ کے لیے میرے ساتھ گفتگو کرنے والے سیکرٹ سروس کے ایجنٹ نے مجھے بتایا کہ امریکہ میں صدارتی قتل سیاسی عمل کا ایک حصہ بن چکا ہے۔ وہ مذاق کر رہے تھے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ غلط تھے۔
سٹوکاسٹک دہشت گردی اتنی طاقتور اور اتنی پیچیدہ ہے اور اسی وجہ سے یہ اتنی موثر ہے۔ تشدد ہر جگہ، ہر وقت، مزید تشدد کو جنم دیتا ہے۔ تاریخ کے اس موقع پر یہ واضح نہیں ہے کہ کیا سیکرٹ سروس یا کوئی اور امریکہ کو خود امریکہ سے بچا سکتا ہے۔
سٹیون مارش ’دا نیکسٹ سول وار: ڈسپیچز فرام دی امریکن فیوچر‘ کے مصنف ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
© The Independent