انڈین احمد آباد جو پاکستان کے میزبان شہر کے طور پر ’پاکستانی کھلاڑیوں‘ پر بھپتیاں کسنے اور ’جے شری رام‘ کے نعروں کی وجہ سے سرخیوں میں چھایا رہا، دراصل اسے ایک مسلم سلطان نے بسایا تھا اور مسلم سلاطین کے عہد میں اسے ’زینت البلاد‘ کہا گیا۔
اس شہر میں مسلم سلطنتوں کی چھاپ چپے چپے پر نظر آتی ہے۔ مساجد، مقبرے، فصیلیں، باؤلیاں اور یادگاریں ایک طاقتور اور خوش حال سلطنت کو بیان کرتی ہیں۔
احمد آباد ایک مرکزی اور تجارتی مقام رہا ہے، جہاں مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی اور 100 کے قریب قدیمی مساجد ہیں۔
1394 میں امیر ظفر خان جو کہ تغلق سلطنت کے ذریعے گجرات کے نامزد گورنر تھے، نے امیر تیمور گورگان کے دہلی پر حملے کے بعد خود مختاری کا اعلان کردیا۔ انہوں نے اپنی بادشاہت قائم کی اور صوبہ گجرات میں ایک مضبوط حکومت کی بنیاد رکھی۔
سلطنت گجرات کے بانی سلطان مظفر خان کے انتقال کے بعد ان کے پوتے احمد شاہ تخت نشین ہوئے۔ مرآۃ سکندری کے مطابق سلطان احمد شاہ نے 813 ذی قعد میں احمد آباد شہر کی بنیاد رکھی۔ کہا جاتا ہے کہ چار لوگ جن کے نام میں حمد کا لفظ آتا ہے، نے احمد آباد کو بسایا، جن میں قطب المشائخ شیخ احمد کھٹو، سلطان احمد، شیخ احمد اور ملا احمد شامل ہیں۔
اس شہر میں 360 محلے بنائے گئے اور ہر محلہ ایک قصبے کی مانند تھا۔ اس عہد کے کئی محلے آج بھی اسی نام سے جانے جاتے ہیں، جیسے جمال پور، شاہ پور، جوہری باڑہ اور خان پور وغیرہ۔ تین سال کی مدت میں شہر کا قلعہ بھی بنایا گیا، جس کے 12 دروازے تھے۔
احمد آباد کی تعمیر و توسیع میں بعد کے سلطانوں نے بھی حصہ لیا۔ سلطان محمود جو کہ سلطان بیگڑہ کے نام سے جانے جاتے تھے، نے 1487 میں احمد آباد شہر کی چار دیواری تعمیر کروائی اور اس کے دروازے پر ایک پتھر نصب کیا، جس میں آیت کریمہ ’من دخل آمنا‘ کندہ تھی۔ اب نہ یہ دروازہ ہے اور نہ چار دیواری۔
آثارِ قدیمہ کی حفاظت کی ماہر بھاونا رام رکھیانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ایسا کہا جاتا ہے کہ انڈیا کے پہلے وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے شہر کی توسیع کے لیے چار دیواری کو توڑنے کے احکامات دیے تھے تاکہ ترقیاتی کام کیے جاسکیں۔‘
احمد آباد سلطنت گجرات کا دارالحکومت تھا، جہاں فن تعیمر کے خوبصورت نمونے بنائے گئے۔ احمد آباد کی جامع مسجد مغربی انڈیا کی سب سے خوبصورت مسجد مانی جاتی ہے۔ یہ اپنے فنِ تعمیر اور خالص پتھروں کی مسجد ہونے کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔
اس مسجد میں روشنی پہنچانے کا ایسا نظام بنایا گیا کہ قدرتی روشنی مسجد کے ہر کونے تک پہنچ جاتی ہے۔ گجراتی سلطانوں کی تعمیرات میں جین مذہب کی طرز پر پتھروں کے ذریعے تعمیرات ہوتی تھیں، جس کی چھاپ احمد آباد کی مساجد اور مقبرے میں صاف نظر آتی ہے اور ہندوانہ طرزِ تعمیر کی وجہ سے ہی گجرات کے سخت گیر ہندو ان مساجد کو مندر مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ مسجدیں پہلے مندر تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گجرات کے سلطانوں نے سڑکیں، پل، لنگرخانے، شفا خانے، مسافر خانے، تالاب اور یتیم خانے کثرت سے بنوائے۔ اس عہد میں سڑکیں بہت چوڑی ہوتی تھی۔ تاریخ فرشتہ میں لکھا ہے کہ سڑکیں اتنی کشادہ تھیں کہ 10،10 بگھیاں پہلو بہ پہلو آسانی سے چل سکتی تھیں۔ یہاں کے محلے ہندو اور مسلمان کی بجائے پیشے کی بنیاد پر قائم تھے۔
پروفیسر انیس نے بتایا: ’اب اسی شہر میں نفرت کا یہ عالم ہے کہ ہندو علاقے میں کسی مسلمان کے ذریعے اراضی خریدنا قانوناً جرم جیسا ہے۔ گجرات کی حکومت میں ایک ایسا قانون ہے، جو ہندو شہریوں کو یہ حق دیتا ہے کہ اگر کوئی غیر ہندو مذہب کا شہری ان کے علاقے میں بسنا چاہتا ہے اور کچھ لوگوں کو اعتراض ہے تو غیر ہندو شہری کو واپس جانا ہوگا۔ اس قانون کا نام ہے ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ۔‘
سلطان احمد شاہ بانی احمد آباد نے شاہی جامع مسجد تعمیر کروائی، جس کے تین دروازے ہیں۔ یہ مسجد پتھروں کے 354 ستونوں پر کھڑی ہے۔ مرکزی بازار میں یہ مسجد چھپی ہوئی معلوم ہوتی ہے، تاہم مسجد میں داخلے کے بعد جامع مسجد کی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ بہت ہی وسیع و عریض صحن اور وسط میں سایہ دار وضوخانہ اور مسجد کے محراب و منبر اور ستونوں پر نہایت نازک نقش نگاری ملتی ہے۔
اسی مسجد میں بادشاہ عیدین اور جمعے کی نماز کے لیے آتے تھے، ان کے لیے الگ سے ایک ملوک خانہ ہے، جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ خواتین کے لیے مختص تھا۔
احمد آباد کی مشہور مساجد میں سیدی سعید کی مسجد بھی ہے، جو جالی دار نقوش سے مزین ہے اور وزیراعظم نریندر مودی اپنے غیر ملکی مہمانوں کو اکثر یہاں لے کر آتے ہیں۔ وزیراعظم مودی جاپانی وزیراعظم شنزو آبے کو مسجد کی سیر کروا چکے ہیں۔
دراصل سِدی، سیدی سعید سلطان مظفر شاہ سوم کے دربار میں بڑے عہدے پر تھے، انہوں نے اپنے شاہی بونس کی رقم سے یہ مسجد بنوائی تھی۔ اس مسجد کی کھڑکیوں پر تراشی گئی جالیاں اور پتھروں پر کی گئی نقاشی کو بڑی شہرت حاصل ہے۔ مقامی لوگ اس مسجد کو اتنی اہمیت نہیں دیتے، کیوں کہ انہیں لگتا ہے کہ جالی والی مسجد سے زیادہ خوبصورت مسجدیں شہر میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ رانی سپری کی مسجد، رانی روپ متی کی مسجد اور سرخیز کی جامع مسجد بھی بہت مشہور ہے۔
یہ شہر کبھی برسوں تک مسلم سلطانوں کے انصاف اور خوش حالی کے لیے جانا جاتا تھا۔ آج بھی یہ شہر تجارتی مرکز ہے، تاہم مسلمانوں کی حکمرانی کے نشانات بہت مندمل ہوچکے ہیں۔ شہر کی ترقی اور فسادات میں بہت کچھ تباہ کر دیا گیا۔ جو یادگاریں بچی ہیں، اس پر حکومت کی توجہ نہیں ہے۔ بھاونا رام رکھیانی بتاتی ہیں کہ یہاں کی حکومتوں نے قدیم مندروں جیسے سومناتھ وغیر کا بہت دھیان رکھا، مگر مسجدوں کو مقامی مسلمانوں کے لیے چھوڑ دیا۔
حالانکہ یہاں کے مقامی مسلمان مساجد کو آباد رکھنے کی پوری کوشش کرتے ہیں، تاہم اس کی حفاظت کے لیے خاص طرح کی مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے، جو صرف حکومت کے پاس ہے۔