پاکستان کے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے جمعرات کو کہا کہ حکومت کا فی الحال عدلیہ میں اصلاحات سے متعلق آئینی ترامیم لانے کا کوئی ارادہ نہیں۔
انہوں نے یہ بات ایک ایسے وقت پر کی جب گذشتہ دنوں حکومت نے پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں عدلیہ سے متعلق آئینی ترامیم لانے کی کوشش کی جو درکار نمبرز پورے نہ ہونے پر کامیاب نہ ہو سکی۔
اس ناکام کوشش پر پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
آج سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے ایک اجلاس میں شرکت کے بعد وزیر قانون نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں واضع کیا کہ سیاسی اتفاق رائے ہونے پر ہی آئینی ترامیم پارلیمان میں لائی جائیں گی۔
’مجوزہ آئینی ترامیم لانے کا فی الحال کوئی ارادہ نہیں، سیاسی اتفاق رائے ہو گا تو ہی آئینی ترامیم لائیں گے۔‘
وفاقی وزیر نے آئینی ترامیم سے متعلق مختلف مسودوں کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’آئینی ترامیم سے متعلق زیادہ مسودے نہیں، آئینی ترامیم سے متعلق ایک ہی مسودہ ہے جو خصوصی کمیٹی میں پیش کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ کوئی مسودہ نہیں۔‘
پارلیمنٹرینز کو پارٹی اجازت کے بغیر آئینی بل پیش کرنے سے روکنے کا فیصلہ
چیئرمین قائمہ کمیٹی سینیٹر فاروق نائیک کے زیر صدارت اجلاس میں آج ارکان پارلینمنٹ کے پارٹی کی اجازت کے بغیر آئینی بل پیش کرنے سے متعلق معاملہ بھی زیر غور آیا۔
وزیر قانون نے پارٹی کی اجازت کے بغیر بل نہ لائے جانے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کوئی رکن پارٹی کی رضا مندی کے بغیر آئینی ترمیم میں ووٹ نہیں دے سکتا۔ ’سپریم کورٹ نے تو یہ تک کہہ دیا کہ پارٹی کی اجازت کے بغیر دیا گیا ووٹ گنا بھی نہیں جائے گا، اسی طرح نجی بل پر بھی لاگو کیا جائے کہ نجی بل پارٹی کی اجازت کے بغیر نہیں آ سکتا۔‘
اعظم نزیر تارڑ نے کہا سفارش کریں کہ آئینی ترمیم سے متعلق نجی بل پارلیمانی لیڈر کی اجازت کے بغیر پیش نہ ہو۔
بعد ازاں کمیٹی نے اراکین کو اپنی مرضی سے آئینی بل لانے سے روکنے کے لیے رولز میں ترمیم کی سفارش کر دی۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا رولز میں ترمیم کی جا سکتی ہے، جس کے بعد کمیٹی نے یہ معاملہ قوائد و ضوابط کمیٹی کو بھیجنے کا فیصلہ کیا۔
اجلاس میں سینیٹر فوزیہ ارشد نے جنرل کلاسز 1897 ایکٹ میں خواجہ سرا (ٹرانسجنڈر) کو شامل کرنے کی شق ڈالنے کے بل پر بات کرتے ہوئے کہا ’پرسن کے لفظ کے ساتھ جینڈر کا لفظ شامل کیا جائے، خواجہ سراؤں کو اس سے حقوق ملیں گے۔ قانون میں جینڈر کو واضح کیا جائے کہ مرد، خاتون اور خواجہ سرا اس میں شامل ہیں۔‘
وزارت قانون، چیئرمین کمیٹی اور جمعیت علما اسلام نے بل کی مخالفت کر دی۔ کمیٹی ارکان نے کہا کہ ’خواجہ سرا کو شامل کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہو گا۔‘
اس پر سینیٹر فوزیہ ارشد نے کہا بہت سے مسلم ممالک میں یہ قانون پہلے سے موجود ہے۔ سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا ’قرآن میں بھی صرف نر اور مادہ کا ذکر ہے، آپ ایسی چیز نہ کریں کہ کل آپ کے اوپر کوئی بات آئے۔‘
چیئرمین کمیٹی فاروق نائیک نے کہا ’یہ ایک حساس معاملہ ہے، اس پر ذرا سوچیں۔‘ بعد ازاں کمیٹی نے معاملے پر اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے طلب کر لی۔
اجلاس کے دوران سینیٹر دنیش کمار کا بلوچستان اسمبلی کی نشستیں بڑھانے اور ہر صوبے سے ایک غیر مسلم رکن کی نشست مختص کرنے‘ سے متعلق بل زیر غور آیا۔
سینیٹر دنیش کمار نے کہا غیر مسلم اراکین کی لیے صرف 10 نشستیں ہیں، اور وہ اراکین کہیں سے بھی آتے ہیں۔
’کم از کم ایک نشست ہر صوبے سے غیر مسلم کے لیے رکھی جائے۔ اس مرتبہ بلوچستان سے کوئی غیر مسلم قومی اسمبلی میں موجود نہیں، بلوچستان سے سیاسی جماعتوں نے کہا کہ حلقے بہت بڑے ہیں۔‘
وزیر قانون نے کہا ان کی صوبائی اسمبلی کی نشستیں بڑھانے کی تجویز ہے، بلوچستان کی کچھ جماعتیں اتفاق نہیں کرتیں، وہ کہتی ہیں صوبائی اسمبلی کی بجائے قومی اسمبلی کی نشستیں بڑھائی جائیں۔
چیئرمین کمیٹی نے سوال کیا ’بلوچستان اسمبلی کی نشستیں ہی کیوں بڑھائی جائیں؟‘
بعد ازاں کمیٹی نے اس بل پر تمام سیاسی جماعتوں سے رائے لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے بلوچستان اسمبلی کی نشستیں بڑھانے سے متعلق ذیلی کمیٹی تشکیل دے دی۔
کمیٹی کو ایک ماہ کے اندر سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد رپورٹ پیش کرنے کا کہا گیا ہے۔
اجلاس کے دوران سینیٹر خالدہ عتیب کا بلدیاتی انتخابات اور اختیارات سے متعلق بل بھی زیر بحث آیا، جس پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’میرا بل بلدیاتی انتخابات سے متعلق ہے، بدقسمتی سے صوبوں نے اٹھارویں ترمیم کے بعد اختیارات نچلی سطح تک منتقل نہیں کیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا وفاقی حکومت یقینی بنائے کہ بلدیاتی انتخابات ہوں تاکہ لوگوں کو ثمرات ملیں، بلدیاتی انتخابات الیکشن کمیشن کی نگرانی میں ہونے چاہییں۔
’جو فنڈز صوبوں کو جاتے ہیں تو وہ فنڈز وزیر اعلیٰ کے پاس کیوں جاتے ہیں؟وہ فنڈز اختیارات لوکل سطح تک کیوں منتقل نہیں ہوتے؟‘
سینیٹر حامد خان نے صوبائی اور اراکین قومی اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے پر پابندی کی تجویز دیتے ہوئے کہا ’جب پارلیمانی رہنماؤں کو ڈویلپمنٹ فنڈز دینا شروع کیے گئے تو مسئلہ بڑھ گیا، فنڈز کتنے استعمال ہوتے ہیں وہ سب کو معلوم ہے۔
’اراکین کو فنڈز دینے سے کرپشن بڑھی ہے، قانون سازوں کو ڈویلپمنٹ فنڈز نہیں دینے چاہیں۔ کسی رکن کو ترقیاتی فنڈ نہیں ملنے چاہییں۔‘
اجلاس کے دوران جب سینیٹر عون عباس کا صوبہ پنجاب کو مزید دو صوبوں میں تقسیم کرنے کے لیے آئینی ترمیم کا بل کمیٹی میں پیش ہوا تو کمیٹی اراکین کی مخالفت کے باعث اسے موخر کر دیا گیا۔
سینیٹر عون عباس نے کہا ’صوبے کی تقسیم ضروری ہے، بڑا صوبہ ہونے کی وجہ سے وسائل کی تقسیم مساوی نہیں۔‘
انہوں نے کہا ’رحیم یار خان کا لاہور سے فاصلہ 800 کلومیٹر ہے، جنوبی پنجاب کے عوام کا اپنے مسائل کے حل کے لیے لاہور کا سفر بہت مشکل ہو جاتا ہے۔‘
اس پر کامران مرتضیٰ نے کہا ’صوبوں کی تقسیم رقبے کے مطابق کرنا درست نہیں، اگر ایسا ہوا تو بلوچستان بھی تقسیم کا مطالبہ کرے گا۔‘
سینیٹر انوشہ رحمان نے تجویز دی کہ بل واپس لے لیا جائے۔ ’آپ ملک کو تقسیم کرنے کی بات نہ کریں۔‘
عوام عباس نے جواب دیا ’پنجاب کی تقسیم کی بات پر ن لیگ کو بڑی تکلیف ہوتی ہے۔‘