سوشل میڈیا پر ایک پیغام عام ہے کہ اس بار ڈینگی بخار بہت زیادہ جان لیوا ہے اس لیے کسی بھی قسم کے بخار کی علامات کو ڈینگی سمجھ کر علاج کرایا جائے کیونکہ جب تک تشخیص ہوتی ہے مریض موت کے منہ میں جا چکا ہوتا ہے۔
اس پیغام میں یہ تاکید بھی کی جاتی ہے کہ اسے صدقہ جاریہ سمجھ کر پھیلایا جائے تاکہ لوگوں کی زندگیاں بچ سکیں۔
پاکستان میں مکران ڈویژن کے ضلع کیچ میں 5,000 لوگوں میں ڈینگی کی تشخیص ہو چکی ہے جبکہ 14 مریض دم توڑ چکے ہیں جبکہ کراچی سے خیبر تک ہر شہر میں ڈینگی کے مریضوں میں روز اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
جب انڈپینڈنٹ اردو نے اس سلسلے میں چیف ایگزیکٹیو آفیسر محکمہ صحت راول پنڈی ڈاکٹر آصف ارباب خان نیازی سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ اب تک راول پنڈی میں ڈینگی سے چار مریضوں کا انتقال ہو چکا ہے جو بہت زیادہ الارمنگ ہے کہ ابھی ڈینگی سیزن کی شروعات ہیں۔
ڈینگی عموماً نوجوانوں کے لیے کم خطرناک ثابت ہوتا ہے لیکن اس بار ہونے والی تینوں اموات نوجوانوں کی ہیں۔ راول پنڈی میں اب تک 960 مریضوں میں ڈینگی کی تشخیص ہو چکی ہے جو آگے جا کر بہت زیادہ بڑھ سکتی ہے۔
اس وقت راول پنڈی کے مختلف ہسپتالوں میں ڈینگی کے مریضوں کے لیے 300 بیڈ مختص کیے جا چکے ہیں جنہیں 1,000 تک بڑھایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس بار جو مریض ہسپتالوں میں آ رہے ہیں ان میں بہت زیادہ پیچیدگیاں پائی جاتی ہیں جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ وقت پر علاج کے لیے نہیں آتے اور گھریلو ٹوٹکوں سے کام چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ڈینگی بخار کے تین درجے ہیں۔ پہلا درجے میں بخار ہوتا ہے، دوسرے درجے کو Hemorrhagic کہا جاتا ہے جس میں پلیٹ لیٹس کم ہو جاتے ہیں اور جسم سے خون رسنا شروع ہو جاتا ہے۔
تیسرے درجے کو شاک سینڈروم کہتے ہیں جس میں جسم کے دوسرے اعضا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ راول پنڈی میں ابھی تک چکن گونیا، ویسٹ نیل یا دیگر وائرس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ ان کی تشخیص کی سہولت صرف نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ یا انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ لاہور میں دستیاب ہے۔
انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ ڈینگی سے بچاؤ کی حفاظتی تدابیر اختیار کریں۔
پنجاب کے سابق نگران وزیر صحت ڈاکٹر جمال ناصر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ڈینگی کوئی بڑا خطرہ نہیں بلکہ انہوں نے اسے ’political disease ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہر سال ڈینگی سے پاکستان میں اوسطاً 60 اموات ہوتی ہیں جبکہ اس کے مقابلے پر ڈائریا اور نمونیا سے سالانہ اڑھائی لاکھ بچے مر جاتے ہیں۔
مگر چونکہ ان اموات کو سیاست کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا اس لیے ان اموات کے تدارک کے لیے سرکار فنڈز بھی نہیں لگاتی۔
ڈینگی لاروے کی چیکنگ، سپرے، ہسپتالوں میں خصوصی وارڈز کے قیام، ادویات، میڈیکل سامان کی خریداری، اشتہار بازی اور ٹیسٹ کٹوں پر ہر سال اربوں روپے لگا دیے جاتے ہیں.
اس کا ایک مقصد عوام کو دو چار مہینے اس کام میں مصروف رکھنا، ان میں خوف کی فضا پیدا کرنا اور پھر ڈینگی کنٹرول کے نام پر کاروبار چلانا ہوتا ہے۔
دو ماہ سرکار کی ضلعی انتظامیہ صرف ڈینگی کنٹرول میں مصروف رہتی ہے۔ میٹنگز اور فوٹو سیشن کا ایک دور چلتا ہے۔
میڈیا کو بھی اس کام میں شریک کر لیا جاتا ہے کیونکہ انہیں بھی خوف پھیلانے کا پیسہ ملتا ہے۔
ڈاکٹر جمال ناصر نے دعویٰ کیا کہ ڈینگی کوئی بڑا مسئلہ نہیں مگر اسے مسئلہ بنا کر سیاسی اور مالی فائدے حاصل کیے جاتے ہیں۔
پاکستان سے ہٹ کر عالمی سطح پر دیکھیں تو امریکہ سے انڈیا تک مچھروں کے بارے میں خبردار کیا جا رہا ہے کہ ان کی آبادی پہلے سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے اور وہ زیادہ جان لیوا بھی ثابت ہو رہے ہیں۔
اس ہفتے کے ٹائم میگزین نے ایک فیچر شائع کیا ہے جس کا عنوان ہےtting more dangerous? Are mosquitoes ge جس میں لکھا گیا ہے کہ امریکہ میں شام کی زندگی کو مچھروں نے شدید متاثر کیا ہے اور لوگوں نے گھروں سے باہر نکلنا کم کر دیا ہے۔
میسا چوسٹس کے کچھ شہروں میں شام کے اوقات میں پبلک پارکوں اور شام کے اجتماعات کو بند کر دیا گیا ہے کیونکہ وہاں مچھروں میں ایک جان لیوا وائرسEastern Equine Encephalitis پایا گیا ہے، جو اس سے پہلے بہت ہی کم دیکھا گیا تھا۔
جان ہاپکنز بلوم برگ سکول آف پبلک ہیلتھ کے پروفیسر ڈاکٹر Photini Sinnis کے حوالے سے لکھا گیا کہ امریکہ کی 38 ریاستوں میں مچھروں کے ذریعے پھیلنے والے ایک خطرناک وائرس West Nile کے 2022 کے مقابلے میں اس سال اب تک دوگنے کیس رپورٹ ہو چکے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مچھروں کی آبادی بڑھنے کی ایک بڑی وجہ جہاں پر شہروں کا پھیلاؤ ہے وہاں پر موسمیاتی تبدیلی بھی ہے۔
معتدل موسم جو مچھروں کی افزائش کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے اس کا دورانیہ دنیا بھر میں بڑھ رہا ہے۔ بوتل کے ایک ڈھکن پانی میں مچھر کے سینکڑوں انڈوں کی افزائش ہو سکتی ہے۔
ایک مادہ مچھر کی عمر 15 سے 20 دن ہوتی ہے۔ تاہم اس دوران وہ 1,000 تک انڈے دے سکتی ہے۔
پاکستان کے ہمسائے انڈیا میں ہر سال مچھروں کے ذریعے چار کروڑ لوگ بیمار ہوتے ہیں جبکہ اس سال ان کی تعداد کہیں زیادہ بتائی جا رہی ہے، جن کا مرکز اگرچہ وسطی ریاستیں ہیں، تاہم پاکستان کے ساتھ جڑی ہوئی ریاست گجرات میں اس کے بہت زیادہ کیس رپورٹ ہو رہے ہیں۔
انڈیا میں اس سال مچھروں سے پھیلنے والی کچھ نئی خطرناک بیماریوں کے مریض بھی سامنے آئے ہیں جن میں West Nile اور Eastern Equine Encephalitis بھی شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
West Nile کے80 فیصد مریضوں میں بخار، سر میں درد، جسم خاص کر جوڑوں میں شدید درد، الٹیاں اور اسہال شامل ہیں۔
Eastern Equine Encephalitis کی علامات میں اچانک بخار کا تیز ہو جانا، سردی لگنا، جوڑوں اور پٹھوں میں درد جبکہ 30 فیصد مریضوں کے دماغ میں سوجن ہو جاتی ہے جس سے مریض موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔
اس وقت دنیا بھر میں مچھروں کے ذریعے چار خطرناک وائرس پھیل رہے ہیں جن میں پہلے نمبر پر ڈینگی ہے۔
انڈیا ٹوڈے کے حالیہ شمارے کے مطابق دنیا بھر میں اس سال ڈینگی کے ایک کروڑ 20 لاکھ مریض سامنے آ چکے ہیں جن میں سے 8,000 سے زائد مریضوں کی اموات ہو چکی ہیں۔
دوسرے نمبر پر ذیکا وائرس ہے۔ یہ بھی مچھروں کے ذریعے پھیلتا ہے۔ یہ وائرس پہلی بار 1947 میں یوگینڈا میں سامنے آیا تھا۔
اس کی علامات بھی ڈینگی بخار سے ملتی جلتی ہیں لیکن اس کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ حاملہ ماں سے بچے میں منتقل ہو جاتا ہے جس سے بچے کا سر چھوٹا رہ جاتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں ذیکا وائرس 1977 میں پہلی بار سامنے آیا تھا۔ آغا خان یونیورسٹی کے مطابق کراچی میں 2021 اور 2022 میں ذیکا وائرس کے مریض سامنے آ چکے ہیں جبکہ اس سال یہ مرض انڈین شہر پونے میں پھیل چکا ہے جہاں 80 سے زائد مریضوں میں اس خطرناک وائرس کی تشخیص ہوئی ہے جن میں سے کئی کی اموات ہو چکی ہے۔
اس کے پیش نظر پاکستان کے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنل سینٹر نے سرحدوں پر آنے جانے والوں کی کڑی نگرانی کا حکم دے رکھا ہے۔ چکن گونیا بھی مچھروں کے ذریعے پھلتا ہے مگر یہ جان لیوا نہیں۔
پاکستان کی وزارت صحت نے گذشتہ ہفتے ملک بھر میں چکن گونیا کے پھیلاؤ کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے ایڈوائزری جاری کی کہ کراچی اور ملک کے دیگر حصوں سے اس کے مریض سامنے آ چکے ہیں۔
اس کی علامات بھی ڈینگی سے ملتی جلتی ہیں اور مریض کو صحت یاب ہونے میں آٹھ سے 12 دن میں لگ جاتے ہیں۔
ملیریا مچھروں کے ذریعے پھیلنے والی ایک عام بیماری ہے جس کا اگر بر وقت علاج نہ ہو تو اس سے گردے ناکارہ ہو سکتے ہیں اور مریض کے مرنے اور کومے میں جانے کا امکان بھی ہوتا ہے۔