مائیکرو پلاسٹک اب انسانی دماغ تک پہنچ گیا: تحقیق

نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جرمنی اور برازیل میں مرنے والے 15 میں سے آٹھ بالغ افراد کے پوسٹ مارٹم کے بعد ان کے دماغ کے آلفیکٹری بلب (دماغ کے سونگھنے میں مدد دینے والے حصے) میں مائیکرو پلاسٹک کی موجودگی پائی گئی۔

ماحول کی ہوا میں مائیکرو پلاسٹک کے ذرات (جینس براہنی/ دی انڈپینڈنٹ)

انسانی دماغ کے سونگھنے میں مدد دینے والے حصے میں پہلی بار مائیکرو پلاسٹکس کی موجودگی کا پتہ چلا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جسم میں جمع ہونے والے ان چھوٹے ذرات کی اصل مقدار اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے جس کا اس سے قبل اندازہ لگایا جا رہا تھا۔

سائنسی جریدے ’جاما نیٹ ورک اوپن‘ میں پیر کو شائع ہونے والی اس تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ جرمنی اور برازیل میں مرنے والے 15 میں سے آٹھ بالغ افراد کے پوسٹ مارٹم کے بعد ان کے برین آلفیکٹری بلب (دماغ کے سونگھنے میں مدد دینے والے حصے) میں مائیکرو پلاسٹک کی موجودگی پائی گئی۔

برازیل کی یونیورسٹی آف ساؤ پالو کے محققین نے کہا کہ پلاسٹک کے چھوٹے ذرات، جو اب ہمارے ماحول میں ہر جگہ موجود ہیں، ممکنہ طور پر مرنے والے افراد کے جسموں میں زندگی بھر سانس کے ذریعے داخل ہوئے ہوں گے۔

اگرچہ پچھلی تحقیق میں انسانی پھیپھڑوں، آنتوں، جگر، خون، ٹیسٹیکلز اور یہاں تک کہ سپرمز میں بھی مائیکرو پلاسٹک پایا گیا تھا لیکن یہ خیال کیا جاتا تھا کہ دماغ کی حفاظتی رکاوٹ ممکنہ طور پر ان زہریلے ذرات کو دماغ سے باہر رکھتی ہے۔

کئی سالوں میں ہونے والی تحقیق نے ان زہریلے ذرات کے مدافعتی نظام پر ہونے والے نقصان دہ اثرات کو اجاگر کیا ہے اور انہیں کینسر کی کچھ اقسام سے جوڑا ہے، خاص طور پر کم عمر افراد میں۔

نئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ آلفیکٹری بلب دماغ میں مائیکرو پلاسٹک کے داخلے کا ایک ممکنہ راستہ ہے، جس سے ڈیمنشیا جیسے اعصابی امراض میں ان کے ممکنہ کردار کے بارے میں خدشات بڑھ گئے ہیں۔

سائنس دانوں نے 15 مردہ لوگوں کے دماغ کا معائنہ کیا، جن میں 12 مرد اور تین خواتین شامل تھیں اور یہ افراد پانچ سال سے زیادہ عرصے سے ساؤ پالو میں مقیم تھے۔ معائنے میں ان میں سے آٹھ کے آلفیکٹری بلب میں 16 مصنوعی پولیمر کے ذرات اور ریشے پائے گئے۔

ان ذرات کا سائز 5.5 مائیکرون سے 26.4 مائیکرون تک تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کھوپڑی کے نیچے کی ہڈی، جسے کرائبرفارم پلیٹ کہا جاتا ہے، میں موجود چھوٹے سوراخ ممکنہ طور پر ناک کے ذریعے پلاسٹک کے ذرات کو دماغ میں داخل کرنے کے لیے گیٹ وے کا کام کرتے ہیں۔ آلفیکٹری بلب اس پلیٹ کے بالکل اوپر موجود ہوتا ہے۔

مطالعے میں کہا گیا: ’ہوا میں مائیکرو پلاسٹک کی بہتات کو دیکھتے ہوئے ناک میں مائیکرو پلاسٹک کی شناخت اور اب آلفیکٹری بلب اور دیگر جسمانی راستوں میں ان کی ممکنہ موجودگی سے اس تصور کو تقویت ملتی ہے کہ آلفیکٹری پاتھ وے دماغ میں خارجی ذرات کے داخلے کی ایک اہم جگہ ہو سکتی ہے۔‘

محققین کا کہنا ہے کہ پہلے تصور کے برعکس پلاسٹک کے چھوٹے ذرات انسانی جسم میں کہیں زیادہ آسانی کے ساتھ داخل ہو سکتے ہیں اور یہ اعصابی اور نفسیاتی حالات جیسے ڈیمنشیا کا باعث ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’دماغ میں مائیکرو پلاسٹک کی وجہ سے ممکنہ نیوروٹاکسک اثرات اور پلاسٹک کی وسیع پیمانے پر ماحولیاتی آلودگی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارے نتائج کو نیوروڈیجینریٹیو بیماریوں کے بڑھتے ہوئے پھیلاؤ کے تناظر میں تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔‘

تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ یہ ذرات دماغ کی صحت کو کس طرح متاثر کر سکتے ہیں۔

سائنس دانوں نے کہا کہ دماغی صحت پر مائیکرو پلاسٹک کے اثرات کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ایم آر آئی اور دیگر برین سکیننگ کی ضرورت ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق