ڈاکٹر ذاکر نائیک کو دعوت: کیا ہم ماضی سے سیکھنا نہیں چاہتے؟

ناقدین بضد ہیں کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خیالات خواتین، اقلیتوں اور دوسرے حوالے سے انتہائی رجعت پسندانہ ہیں۔ ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ غلامی، غیر انسانی سزاؤں، پدرسری اور کثرت ازواج کا دفاع کرتے ہیں۔

وزیراعظم محمد شہباز شریف سے ممتاز اسلامی سکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک نے وزیر اعظم ہاؤس اسلام آباد میں 2 اکتوبر 2024 کو ملاقات کی (پی آئی ڈی)

پاکستانی ریاست کی طرف سے معروف مذہبی سکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک کو ریاستی سطح پر دعوت دیے جانے کے عمل پر اگر کئی حلقے بہت خوش ہیں تو کئی میں اسے ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔

ناقدین دعویٰ کرتے ہیں کہ ڈاکٹر ذاکر کے خیالات مذہبی حوالے سے انتہائی رجعت پسندانہ ہیں اور یہ کہ ایک ایسے موقعے پر جب ملک پہلے ہی مذہبی عدم رواداری کا شکار ہے ایک ایسے مذہبی عالم کو دعوت دے کر نوجوانوں کی مذہبی خطوط پر ذہن سازی کرنا اس بات کا اشارہ ہے کہ ریاست نے اپنے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔

تاہم ڈاکٹر ذاکر نائیک کے حامیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ بھارتی نژاد مذہبی سکالر نے کبھی بھی کوئی ایسی بات نہیں کی جو مستند دلیل کے بغیر ہو اور یہ کہ اس مذہبی سکالر کا سیاسی معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور یہ کہ انہوں نے اپنی تمام تر تحریر و تحقیق کو مذہب کے ابلاغ کے لیے استعمال کیا ہے۔

ان کا دعویٰ ہے کہ ڈاکٹر ذاکر صرف آزادی اظہار رائے کے ذریعے اپنے نقطہ نظر کو اپنے سامعین یا دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اور یہ کہ ان کی مجالس تمام لوگوں کے لیے کھلی ہوتی ہیں، جہاں رنگ، نسل، مذہب، فرقے اور وطن یا کسی اور بنیاد پر کسی طرح کا بھی کوئی تعصب نہیں ہوتا۔

ان کی مجلس میں ہندو، سکھ، عیسائی، دینی اور لادینی ہر طرح کے لوگ آتے ہیں، جو ڈاکٹر ذاکر سے اسلام اور مذہب کے حوالے سے انتہائی مشکل سوالات کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر ان سوالات کا تحمل سے جواب دیتے ہیں اور اپنے مخالف کو پورا موقع دیتے ہیں کہ وہ ان کے خیالات پر کھل کے تنقید کرے اور ان کے خیالات کو علمی اور عقلی بنیادوں پہ چیلنج کرے۔

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

A post shared by Independent Urdu (@indyurdu)

 

تاہم ناقدین بضد ہیں کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خیالات خواتین، اقلیتوں اور دوسرے حوالے سے انتہائی رجعت پسندانہ ہیں۔ ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ غلامی، غیر انسانی سزاؤں، پدرسری اور کثرت ازواج کا دفاع کرتے ہیں۔ میوزک، ڈراما، آرٹ اور کلچر کے حوالے سے بھی ان کے خیالات افغان طالبان اور دوسرے انتہا پسند گروپوں کے قریب ہیں۔

ان کا دعویٰ ہے کہ ڈاکٹر ذاکر کے مبینہ طور پر انتہا پسندانہ خیالات کی وجہ سے ان کے چینل پر کئی ممالک میں پابندی لگائی گئی۔

ان ناقدین کا کہنا ہے کہ ریاست کبھی مختلف مذہبی یوٹیوبرز کے ذریعے نوجوانوں کے ذہن سازی کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ کبھی وہ کسی مذہبی تبلیغی جماعت کا سہارا لیتی ہے۔ کبھی وہ انتہا پسند گروپوں کو یہ اجازت دیتی ہے کہ وہ معاشرے میں نفرت پھیلائیں اور کبھی وہ تنگ نظر علما اور پیروں سے قربت بڑھا کر سماج کو یہ دکھانے کی کوشش کرتی ہے کہ یہ  رجعت پسند عناصر ریاست کے قریب ہیں۔

پاکستان میں پہلے دن سے مذہب کی بنیادوں پر عوام کو متحد کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ کئی ناقدین کے خیال میں پاکستان کی ریاست کی طرف سے یہ ایک دانش مندانہ قدم نہیں تھا کیونکہ تقسیم ہند کے وقت پاکستان میں غیر مسلموں کی تعداد 25 فیصد کے قریب تھی۔ ایسے میں ان غیر مسلم پاکستانیوں میں احساس بیگانگی پیدا ہوا جس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔

ناقدین کا دعویٰ ہے کہ  سرد جنگ کے تناظر میں پاکستان نے مذہب کو استعمال کر کے مغربی امداد حاصل کرنے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے ملک میں مذہبی عناصر کی حوصلہ افزائی ہوئی اور ملک میں رہنے والی مذہبی اکائیوں کے درمیان نفرت پیدا ہوئیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان نفرتوں کی بنیاد پر بھڑکنے والی آگ کی وجہ سے لاہور میں پہلا مارشل لا پچاس کی دہائی میں لایا گیا۔ اس کے بعد بھی یہ عناصر وقتا فوقتا سر اٹھاتے رہے اور ان کو عروج 70 کی دہائی میں حاصل ہوا جب انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک مذہبی بنیادوں پہ چلائی جب کہ جنرل ضیا الحق کے دور میں وہ ہوا میں اڑنے لگے۔

ان عناصر کی سرپرستی کے بھیانک نتائج نکلے۔ اسی اور نوے کی دہائیوں میں بدترین فرقہ وارانہ فسادات ہوئے، جن میں ڈاکٹرز، انجینیئرز اور کئی پروفیشنلز کو قتل کیے جانے کے علاوہ فرقہ ورانہ بنیادوں پر آبادیاں بھی تقسیم ہوئیں۔

مشرف کے دور میں ان عناصر نے جنرل پرویز مشرف اور کراچی میں ایک کور کمانڈر کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ اسی حوصلہ افزائی کی وجہ سے ملک کو کالعدم تحریک طالبان کی عسکریت پسندی کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے 30 ہزار سے زائد پاکستانیوں کی جانیں گئیں اور اربوں ڈالر کا انفراسٹرکچر تباہ ہوا۔ اس تلخ تاریخ کے باوجود یہ تجویز کیا گیا کہ ان انتہا پسند عناصر کو کسی نہ کسی طرح معاشرے میں جگہ دی جائے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے ان سے اسلام آباد میں ملاقات میں ان کی سوچ کی سرکاری طور پر بظاہر توثیق کی۔ وزیراعظم نے ممتاز اسلامی اسکالر سے گفتگو میں کہا کہ انہوں نے دنیا بھر کو اسلام کا صحیح تشخص سے روشناس کروایا اور اعتراف کیا کہ سامعین میں ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تک ان مذہبی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کو ہنر نہیں دیا جائے گا، وہ جاب مارکیٹ کے لیے کیسے موزوں بن سکیں گے؟

ناقدین کا خیال ہے کہ ریاست پہلے ہی ماضی کی غلطیوں کا خمیازہ بھگت رہی ہے اور ایسے میں ایک بار پھر ذاکر نائیک اور دوسرے مذہبی عناصر کی سرپرستی پاکستان کے لیے مسائل میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔

نوٹ: تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر