کمبوڈیا جانے والے پاکستانی اغوا برائے تاوان کا نشانہ کیسے بنے؟

پاکستانی شہریوں محمد حسنین اور حسن رضا سے کمبوڈیا میں اغوا کرنے والوں نے تکئی ہزار ڈالر تاوان طلب کیا جس کی ادائیگی کے بعد انہیں پاکستان آنے کے لیے رہائی ملی۔

روزگار کی تلاش میں کمبوڈیا جانے والے کئی پاکستانی شہری وہاں اغوا برائے تاوان کا شکار ہوگئے جن کی واپسی تاوان ادا کر کے ہوئی جبکہ کئی تاحال کمبوڈیا کی جیلوں میں قید یا اغوا کاروں کے پاس ہیں۔

پاکستان کے مشکل معاشی حالات اور ملک میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے باعث تقریباً ہر شہری نقل مکانی کا خواہاں ہے اور ملک سے باہر کہیں بھی بہتر روزگار ڈھونڈنا چاہتا ہے۔

ان ہی میں سے ایک محمد حسنین طلحہ بھی ہیں جن کا تعلق ملتان سے ہے۔ اُنہوں نے دو ماہ قبل ایک ایجنٹ کو چھ لاکھ روپے دے کر کمبوڈیا کا ویزا حاصل کیا۔ جس میں انہیں دھوکہ دہی کا سامنا کرنا پڑا۔

انڈپینڈنٹ اردو کو آپ بیتی سناتے ہوئے محمد حسنین کہا کہ ’مجھے کمبوڈیا کا ویزا دیے جانے سے قبل یہ بتایا گیا تھا کہ وہاں اردو کال سینٹر میں ملازمت دی جائے گی جس کے عوض ڈالر میں تنخواہ ملے گی جو پاکستانی کرنسی کے اعتبار سے بہترین تنخواہ ہو گی۔‘

بقول حسنین: ’کمبوڈیا جاتے ہی ہوائی اڈے پر پاسپورٹ ضبط کر لیا گیا اس کے بعد ہمیں نامعلوم مقام پر لے جایا گیا جہاں بہت سارے کمپیوٹر سسٹم تھے اور اردو کال سینٹر کے نام پر ہمارے ساتھ فرا ڈ کیا گیا اور ہمیں من چاہے کام کرنے پر مجبور کیا جاتا رہا جس کی ہمیں سمجھ بھی نہیں آ رہی تھی۔

’کام نہ آنے پر وہاں کے ویتناموں نے مجھ پر تشدد کیا اور دو دو روز تک کھانا بھی نہیں دیتے تھے۔ ہمارے اغوا کار نے یہ کہا کہ اس نے ہمارے ایجنٹ کو دو ہزار ڈالر دے کر ہمیں کمبوڈیا بلوایا ہے۔

’یہ بات سن ہماری بے چینی بڑھ گئی اور ہھر پتہ لگا کہ ہم اب اغوا ہو گئے ہیں مجھ سمیت بہت سے پاکستانی نامعلوم جگہ پر اغوا کاروں کے شکنجے میں ہیں۔‘

محمد حسنین طلحہ کا کہنا تھا کہ ’مجھ سے یہ کہا گیا کہ اپنے گھر سے چار ہزار ڈالر ہمیں لے کر دو اور پاسپورٹ حاصل کر لو۔ میں 20 روز سے زائد وہیں رہا اور میرے گھر والوں نے قرض ادھار لے کر مجھے تین ہزارڈالر بھیجے تب جا کر میں اپنے گھر کو پہنچا۔‘

کمبوڈیا میں ہمیں کرنٹ لگا کر تشدد کیا گیا: متاثرین

حسن رضا کا تعلق لاہور سے ہے اور انہیں بھی کمبوڈیا بھی جھانسہ دے کر بھیجا گیا کہ یہ ’سنہری موقع‘ہے پیسے کمانے کا۔

حسن رضا نےانڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے آٹھ لاکھ دے کر ویزا حاصل کیا اور چھ ستمبر کو کمبوڈیا پہنچتے ہی وہ لوگ اغوا کاروں کے ہتھے چڑھ گئے۔ ان سے پاسپورٹ چھینے گئے اور جاتے ہی جیل خانے میں یہ کہہ کر ڈال دیا گیا کہ اگر آزاد ہونا ہے تو چار ہزار ڈالر دو اور چلے جاؤ۔

حسن رضا نے بتایا کہ ان کے بڑے بھائی یعقوب نے مویشی بیچ کر انہیں اغوا کرنے والوں سے نجات دلائی۔

کمبوڈیا میں پاکستانی جرائم پیشہ گروہوں کے جال میں کیسے پھنسے؟

آج کل پاکستانیوں کو افریقی ممالک میں چند ماہ یا ایک سال کا ویزا لگا کر یورپ میں سیٹل کرانے کا شارٹ کٹ راستہ دکھایا جا رہا ہے جس کا نتیجہ سینکڑوں پاکستانیوں کے کمبوڈیا میں پھنسنے کی شکل میں سامنے آیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

روزگار کی تلاش میں کمبوڈیا جانے والے پاکستانی شہریوں کا کہنا ہے کہ پاکستان سے ٹریول ایجنٹس کے ذریعے ان کو کمبوڈیا لایا جا رہا ہے جنہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ وہاں آئی ٹی کی کمپینوں کو نوجوانوں کی ضرورت ہے مگر وہاں پہنچنے پر صورت حال یکسر مختلف ہوتی ہے۔

محمد حسنین اور حسن رضا کی طرح اشرف علی کے صاحبزادے احمد علی بھی ایسے ہی حالات کا شکار ہوئے جو اب بھی کمبوڈیا میں پھنسے ہوئے ہیں۔

فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے اشرف علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے 20 سالہ صاحبزادے احمد علی اس وقت کمبوڈیا کے کسی نامعلوم  مقام پر ہیں جہاں باقی کے دو پاکستانی متاثرین یرغمال بنے ہوئے تھے۔

اشرف علی نے بتایا کہ ان کے بیٹے کے ساتھ بھی نوکری کا وعدہ کیا گیا اور مجبور کیا گیا کہ وہ غیر قانونی کام کریں۔ ’کمپیوٹر پر اس کو تنگ کیا جا رہا ہے کے وہ چار ہزار  ڈالر بھی دے اس معاملے پر کئی بار دفتر خارجہ رابطے کی کوشش کی گئی لیکن در بدر بھٹکتے ہی رہ گئے۔‘

احمد علی، محمد حسنین اور حسن رضا کی طرح سینکڑوں پاکستانی شہری کمبوڈیا میں ایسے غیر قانونی گروہوں کے شکنجے میں پھنس کر لاکھوں روپے کی ادائیگی کرنے کے باوجود کمبوڈیا سے وطن نہیں آ پا رہے۔

اس سارے معاملے کا خوفناک پہلو یہ ہے کہ کمبوڈیا میں پھنسے پاکستانی شہریوں سے غیر قانونی کام کرایا جا رہا ہے اور احکامات نہ ماننے والوں پر تشدد بھی کیا جا رہا ہے۔

ترجمان پاکستان وزارت خارجہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے اس سارے معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’کمبوڈیا میں موجود ہمارے سفارتی مشن نے پاکستانی شہریوں کی واپسی کے لیے اقدامات کیے ہیں جس میں سے کچھ پاکستانیوں کی وطن واپسی ہوئی ہے۔ صرف چند پاکستانی ہی ایسے گروہوں کے شکنجے میں ہیں جن کی وطن واپسی کے لیے ہمارا سفارتی مشن کام کر رہا ہے۔‘

ترجمان پاکستان دفتر خارجہ کے مطابق: ’جنوری 2023 سے لے کر اب تک ایسے 90 پاکستانی شہریوں کی وطن واپسی کو ممکن بنایا جا چکا ہے۔‘

دوسری جانب اس وقت بہت سے پاکستانی کمبو ڈیا کی جیل میں ہیں انہوں نے اپنے ویڈیو بیان انڈپینڈنٹ اردو سے شیئر کیے ہیں جن میں انہوں نے اعلی حکام سے درخواست کی ہے کہ ان کی وطن واپسی کے اقدامات کو تیز تر بنائیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی