کیا وفاق کی ہدایت پر صوبائی پولیس کارروائی کر سکتی ہے؟

خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ گذشتہ روز پی ٹی ایم کے خلاف کارروائی وفاقی حکومت کی ہدایت پر کی گئی جس کے بعد یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے؟

نو فروری، 2024 کی اس تصویر میں خیبرپختونخوا پولیس کے اہلکار پشاور میں تعینات دیکھے جا سکتے ہیں(اے ایف پی)

گذشتہ روز صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع خیبر میں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے جرگے کے خلاف پولیس کریک ڈاؤن کے بعد صوبائی حکومت نے کہا ہے یہ کارروئی وفاقی حکومت کی ہدایت پر کی گئی۔

خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے گذشتہ روز پی ٹی ایم کے خلاف کارروائی پر اپنے بیان میں بتایا ہے کہ ’وفاقی حکومت نے چیف سیکریٹری کو ایک خط میں پی ٹی ایم کے خلاف کارروائی کا کہا تھا۔‘

بیرسٹر سیف نے بتایا کہ ‘خط میں لکھا گیا ہے کہ پی ٹی ایم ریاست مخالف بیانیے کو تقویت دے رہے ہیں لہذا ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔‘

تاہم سوشل میڈیا پر اس حوالے سے ایک نئی بحث شروع ہوئی ہے کہ اگر پولیس صوبائی حکومت کی ہے، تو وفاقی حکومت کے ہدایت پر وہ کیسے کسی صوبے میں کارروائی کر سکتی ہے۔ 

عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر ایمل ولی خان کا کہنا ہے کہ ’اگر پولیس صوبے کی ہے تو یہ صوبائی معاملہ ہے اور پولیس سے جواب وزیراعلیٰ نے لینا ہے تو وفاق پر اس کا ملبہ کیوں گرایا جا رہا ہے۔‘

اسی معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو نے آئینی ماہرین سے بات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ آئینی اور قانونی طور پر کیا وفاقی حکومت صوبے کی پولیس کو کسی کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایت دینے کا حق رکھتی ہے یا نہیں۔ 

چیف سیکریٹری اور آئی جی کی تعیناتی

پہلے یہ جانتے ہیں کہ کسی بھی صوبے میں چیف سیکریٹری اور صوبے کے پولیس کی سربراہ جس کو پراونشل پولیس افیسر یا عرف عام میں انسپیکٹر جنرل(آئی جی) پولیس کہا جاتا، کی تعیناتی کیسے کی جاتی ہے۔

چیف سیکریٹری کی تعیناتی کی بات کی جائے تو کسی بھی صوبے میں چیف سیکریٹری کی تعیناتی سول سروس کمپوزیشن اینڈ کیڈر رولز 1954 کے تحت کی جاتی ہے۔ 

یہ قانون اس وقت کے صدر، سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا(اس وقت صوبہ سرحد) کے گورنرز نے بنایا تھا اور اس قانون کے تحت پاکستان ایڈمینیسٹریٹیو سروس کا آغاز کیا گیا جس میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے امتحان کے بعد افسران بھرتی کی جاتے ہیں۔

قانون میں کہا گیا ہے کہ اس سروس کے افسران کی صوبے میں کچھ پوسٹوں پر تعیناتی کی جائے گی جس میں چیف سیکریٹری بھی شامل ہو گا۔

اس قانون کی شق نمبر15 میں لکھا گیا ہے کہ وفاقی حکومت، متعلقہ صوبائی حکومت یا وزیراعلیٰ کی تجویز پر چیف سیکریٹری تعینات کریں گے اور تعیناتی کے لیے کچھ نام وزیراعلیٰ کو بھیجے جائیں گے۔ 

تاہم قانون کے مطابق اگر وزیراعلیٰ نے 15 دنوں میں جواب نہیں دیا تو وزیراعظم کو چیف سیکریٹری تعینات کرنے کا اختیار ہوگا اور اس افسر کا تعلق پاکستان ایڈمینیسٹریٹیو سروس سے ہو گا۔ 

اسی طرح پولیس سربراہ یا آئی جی کی تعیناتی بھی کی جاتی ہے جس میں قانون کے مطابق ناموں کی لسٹ متعلقہ صوبائی حکومت یا وزیراعلیٰ کو بھیجی جاتی ہے اور وزیراعلیٰ کی تجویز پر وزیر اعظم، آئی جی کی تعیناتی کا حکم دیتے ہیں۔

اس قانون کی شق نمبر14 کے مطابق اس سروس کے ملازمین وفاقی حکومت کے احکامات کے مطابق ملک کے کسی بھی حصے میں تعینات کیے جا سکتے ہیں اور اس متعلقہ صوبے کی حکومت کے تحت اپنے فرائض انجام دیں گے۔

اسی قانون کے مطابق تعیناتی کے بعد متعلقہ افسر اسی صوبائی حکومت کے ڈسپوزل پر ہوں گے جب تک ان کو کسی اور جگہ پر تعینات نہ کیا جائے۔

کیا چیف سیکریٹری اور آئی جی وزیراعلیٰ کو جوابدہ ہوتا ہے؟

سپریم کورٹ کے وکیل عمر گیلانی آئینی ماہر ہیں اور دی لا اینڈ پالیسی چمبر کے رکن ہیں جنہوں نے اس مسئلے کے قانونی نکتوں پر کام کیا ہے۔ 

عمر گیلانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’آئین پاکستان کے ایک تہائی شقیں صوبائی خود مختاری کے حوالے سے ہیں اور اسی وجہ سے آئین کی شق نمبر 240 میں لکھا گیا ہے کہ وفاق کے ملازمین پارلیمنٹ کے ایکٹ اور صوبے کے ملازمین یا تعیناتی صوبائی حکومت کے قوانین کے تحت ہو گی۔‘

تاہم عمر گیلانی کے مطابق: ’شق نمبر 242 میں بھی یہ واضح کیا گیا ہے کہ صوبائی ملازمین کے لیے صوبائی پبلک سروس کمیشن ہو گا اور وفاق کے لیے فیڈرل پبلک سروس کمیشن ہو گا۔‘

عمر گیلانی نے بتایا کہ ’اس کے برعکس 77 سالوں میں کسی بھی صوبے نے صوبائی پبلک سروس کمیشن کے کسی افسر کو چیف سیکریٹری تعینات نہیں کیا اور چیف سیکریٹری کا صوبے میں تعیناتی کا نوٹیفیکشن بھی وفاقی حکومت کرتی ہے جیسے وہ وائسرائے کو تعینات کرتی ہے۔‘

عمر گیلانی کے مطابق: ’مسئلہ تب ہوتا ہے کہ اگر صوبے کی پوری کابینہ بھی چیف سیکریٹری سے خوش نہیں ہے، تو پھر بھی چیف سیکریٹری کو کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا اور صرف اتنا کر سکتا کے ان کے خلاف وفاقی اسٹبلشمنٹ ڈویژن کو خطوط لکھے۔ 

’چیف سیکریٹری کے علاوہ بھی قانون کے مطابق صوبے میں وفاقی حکومت کے افسران تعینات کیے جاتے ہیں جن میں کمشنرز، ضلعی پولیس افسران، اور دیگر محکموں کے افسران شامل ہیں۔‘

عمر گیلانی نے بتایا کہ ’یہ معاملہ اور وفاقی سروس کمیشن کے ملازمین کی صوبوں میں تعیناتی غیر آئینی ہے لیکن اس پر دھیان نہیں دیا جا رہا اور اس کے علاوہ یہ نظام ان ٹیلنٹڈ ملازمین جو صوبائی سروس کمیشن میں تعینات ہوتے ہیں، کے ساتھ امتیازی سلوک بھی ہے کہ وہ اہم عہدوں تک نہیں پہنچ سکتے۔‘

مرکز کی صوبوں میں تعیناتی کی تاریخ کیا ہے؟

عمر گیلانی نے اس حوالے سے بتایا کہ ’سب سے پہلے تعیناتی کا یہ قانون تقسیم ہند سے پہلے 1915 میں پاس ہوا جب گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1915 کے تحت وفاق کے افسران کو اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اس کے پیچھے وجہ یہ تھی کہ انگریزوں کو صوبائی بیوروکریٹس یا سیاست دانواں پر اعتماد نہیں تھا اور اسی وجہ سے وہ اپنے پسندیدہ افسران کو اہم عہدوں پر صوبوں میں تعینات کرتے تھے اور 118 سال گزرنے کے باوجود ہم اب بھی اسی قانون میں اٹکے ہیں۔‘

وفاقی حکومت کے خط کی قانونی حیثیت کیا ہے؟

شبیر حسین گگیانی آئینی ماہر اور پشاور ہائی کورٹ کے وکیل ہیں اور کہتے ہیں کہ ’اٹھارویں ترمیم کے بعد پولیس اور امن و امان کی ذمہ داری صوبائی معاملہ ہے اور اس میں وفاقی حکومت دخل اندازی نہیں کر سکتی۔‘

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’موجودہ حکومت نے چیف سیکریٹری اور آئی جی کو تبدیل کرنے کی کوشش بھی کی لیکن وہ نہیں کر سکے کیونکہ دونوں افسران کو وفاقی حکومت نے تعینات کیا ہے اور انہی کے ایما پر کام کر رہے ہیں۔‘

شبیر گگیانی کے مطابق: ’چیف سیکریٹری کی تعیناتی وفاق کرتی ہے لیکن صوبائی حکومت کے مشورے سے کرتی ہے اور تعیناتی کا نوٹیفیکیشن وفاقی حکومت جاری کرتی ہے۔

’لیکن پی ٹی ایم کے معاملے میں وفاقی حکومت نے ان کے جرگے کے خلاف کارروائی کا نہیں بتایا ہے بلکہ ان پر نظر رکھنے کا بتایا گیا ہے۔‘

شبیر حسین گگیانی کے مطابق: ’اگر وفاقی حکومت کی جانب سے خط بھی لکھا گیا تھا تو صوبائی حکومت کو جوابی خط لکھنا چاہیے تھا کہ اس حوالے سے ثبوت اور دیگر دستاویزات پیش کیے جائیں تاکہ اس پر صوبائی حکومت کام کرے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’پہلے تو قانون کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے خط وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ یا وزیراعلیٰ یا متعلقہ صوبائی محکمے کو لکھنا چاہیے تھا تاکہ اس پر آئین و قانون کے مطابق کام کیا جاتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا ہے۔‘

بیرسٹر علی گوہر درانی سپریم کورٹ اف پاکستان کے وکیل اور آئینی امور پر عبور رکھتے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کوئی بھی چاہے چیف سیکریٹری ہوں، آئی جی ہوں یا کوئی چوکیدار، وہ کسی بھی غیر آئینی اور غیر قانون احکامات کو ماننے کے تابع نہیں۔‘

علی گوہر نے بتایا کہ ’پولیس سروس آف پاکستان کی اگر بات کی جائے تو صوبے میں سکیل 17 تک افسران صوبائی حکومت کے ملازمین ہوتے ہیں اور صوبائی پولیس ایکٹ کے تحت کام کرتے ہیں اور وہ وفاقی حکومت کے تابع نہیں ہوتے۔‘ 

انہوں نے مزید بتایا کہ ’آئی جی یا چیف سیکریٹری کے ماتحت ملازمین کوئی بھی غیر آئینی احکامات ماننے کے تابع نہیں چاہے وہ احکامات وفاقی حکومت کی ہوں یا صوبائی حکومت کے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کیا وزیراعلیٰ کسی چیف سیکریٹری یا آئی جی کے خلاف ایکشن لے سکتا ہے، اس کے جواب میں علی گوہر نے بتایا کہ ’چیف سیکریٹری اور آئی جی کے حوالے سے صوبائی حکومت، وفاقی حکومت کو بتا سکتی ہے کہ اس افسر کے خدمات ہمیں نہیں چاہیں اور صوبہ کسی کو بھی ایڈیشنل چارج بطور آئی جی یا چیف سیکریٹری دے سکتا ہے۔‘

اس معاملے پر صوبائی مینیجمنٹ سروس کی نمائندہ تنظیم پی ایم ایس افیسر ایسوسی ایشن کے ایک عہدیدار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’وفاقی ملازین کی صوبے میں تعیناتی پر ہم نے رجسٹرار سپریم کورٹ، وزیراعظم، آڈیٹر جنرل سمیت تمام متعلقہ اداروں کو خطوط ماضی میں بھیجے ہیں کہ وفاقی ملازمین کی صوبوں میں تعیناتی غیر آئینی ہے۔‘ 

تاہم عہدیدار کے مطابق: ’صوبائی حکومتوں نے ماضی اور اب بھی اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا ہے کیونکہ آئین کے مطابق شق 240 اور 242 کے تحت صوبے کے ملازمین صوبائی پبلک سروس کمیشن بھرتی کے بعد تعینات ہوں گی۔‘

عہدیدار کے مطابق: ’آج بھی وزیراعلیٰ اپنی مرضی کا صوبائی ملازم چیف سیکریٹری تعینات کر سکتا ہے اور اس تعیناتی کو کوئی بھی چیلنج نہیں کر سکتا۔

’ابھی حالیہ دنوں میں چیف سیکریٹری کی چھٹی کے دوران صوبائی ملازم کو ایڈیشنل چیف سیکریٹری کا چارج دیا گیا تھا اور وہ وزیراعلیٰ کے حکم پر کیا گیا تھا جو بالکل آئینی اقدام تھا۔‘

اسی عہدیدار کے مطابق: ’یہ کیسا نظام ہے کہ صوبے کے چیف ایگزیکٹیو یعنی وزیراعلیٰ صوبائی چیف سیکریٹری یا آئی جی کا احتساب نہیں کر سکتا اور نہ یہ ملازمین وزیراعلیٰ کو جواب دہ ہیں لیکن تنخواہ صوبے سے لیتے ہیں جو عجیب بات ہے۔‘

عہدیدار نے بتایا کہ ’قانونی طور پر وفاقی حکومت صوبے کو کسی معاملے پر درخواست تو کر سکتی ہے لیکن وہ احکامات جاری نہیں کر سکتی اور نہ صوبہ ان احکامات کو ماننے کا پابند ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان