پی ٹی ایم: کچھ دوستوں کی بنائی ہوئی تنظیم کا پابندی تک کا سفر

حکومت پاکستان نے پی ٹی ایم پر پابندی لگا دی ہے، لیکن یہ تنظیم کب بنی اور اس کا پابندی تک کا سفر کیسا رہا؟ جانیے اس رپورٹ میں۔

اپریل، 2018 کی اس تصویر میں پی ٹی ایم کے رہنما لاہور میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے(اے ایف پی)

حکومت پاکستان نے چھ اکتوبر کو پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔

وزارت داخلہ نے اپنے نوٹیفکیشن میں کہا کہ ’ٹھوس شواہد کی روشنی میں پشتون تحفظ موومنٹ پر پابندی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔‘

نوٹیفکیشن میں مزید کہا گیا کہ ’پی ٹی ایم ملک دشمن بیانیے اور انارکی پھیلانے میں ملوث ہے۔‘

حکومت کے اس اعلان کے بعد پی ٹی ایم مرکزی کور کمیٹی کے رکن اور ’پشتون جرگے‘ کے ترجمان عبدالصمد نے کور کمیٹی میٹنگ کے فیصلوں کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہمارے کارکنان نے جیل، تشدد، گرفتاریاں اور پر قسم  کی صعوبتیں گذشتپ چھ سالوں سے برداشت کی ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’ریاست جتنا کر سکتی تھی ، ہمارے ساتھ کیا ہے تو اب پابندی لگانے کے بعد مزید وہ ہمارے ساتھ کیا کر سکتے ہیں اور اسی وجہ سے پابندی لگانے سے ہماری تحریک پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔‘

عبدالصمد نے کہا کہ ’ہم نے تحریک میں شہادتیں بھی دی ہیں اور جنازے بھی اٹھائے ہیں لیکن ہم پابندی سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔‘

جرگے کے حوالے سے عبدالصمد نے بتایا کہ ’کور کمیٹی میٹنگ میں فیصلہ ہوا ہے کہ جرگہ ہر صورت میں ہو گا اور ابھی بھی کثیر تعداد میں لوگ جرگے کے مقام پر جمع ہیں۔‘

پی ٹی ایم کی تاریخ

پاکستان کے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان میں 2004 میں شدت پسندی میں اضافے سے حالات خراب ہونا شروع ہوئے تو مقامی افراد نے اس معاملے پر آواز اٹھانا شروع کی۔

تاہم علاقے کے حالات اور امن و امان کی صورت حال بد سے بدتر ہوتی گئی، جس کے بعد پاکستان فوج نے قبائلی علاقوں میں 2007 میں فوجی آپریشن کا آغاز کیا۔

ان آپریشنز کے نتیجے میں 2009 اور 2010 تک ان علاقوں کے حالات قدرے بہتر تو ہوئے، لیکن یہاں سے لاکھوں افراد کو نقل مکانی کرنی پڑی۔

اس تمام عرصے کے دوران شمالی وزیرستان کا ایک نوجوان، جو اس وقت ڈاکٹر آف ویٹرنری میڈیسن کی تعلیم حاصل کر رہا تھا، دوران تعلیم اپنے علاقے کے حالات پر آواز اٹھاتا رہا۔

2014 میں اس نے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر مقامی سطح پر ’محسود تحفظ موومنٹ‘ کی بنیاد رکھی اور امن و امان کے لیے چھوٹے موٹے مظاہرے شروع کیے۔

اس تحریک کی سربراہی منظور احمد پشتین کے ہاتھوں میں تھی۔ 2017 میں منظور پشتین کی تنظیم قومی اور بین الاقوامی میڈیا کی خبروں کا حصہ بنی جب انہوں نے اسلام آباد کی جانب 10 روزہ مارچ کا اعلان کیا۔

اس وقت تنظیم کے حامیوں کی تعداد بھی بڑھنا شروع ہوئی اور ان کے مطالبات میں علاقے میں امن و امان، لاپتہ افراد کی بازیابی سمیت بے گھر افراد کی واپسی شامل تھی۔

منظور پشتین کے اس مارچ کو اتنی پذیرائی ملی کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان سمیت، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور دیگر سیاسی رہنما نہ صرف اس میں شریک ہوئے اور تنظیم کے مطالبات کی حمایت کا اعلان کیا۔

تب سے منظور پشتین نے محسود تحفظ موومنٹ سے اس تحریک کا نام پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) رکھ دیا اور تحریک کی باقاعدہ تنظیم سازی بھی شروع کی۔

پی ٹی ایم نے بعد ازاں پشاور، کراچی، سوات، لاہور، کوئٹہ سمیت ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں جلسے منعقد کیے، جن میں وہ حکومتی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کیا کرتے تھے۔

ان جلسوں اور جلوسوں میں منظور پشتین پاکستان فوج پر بھی تنقید کرتے رہے۔ تاہم فوج نے کئی بار پی ٹی ایم کے الزامات کی تردید کی ہے۔

ان الزامات پر 2018 میں اس وقت کے پشاور کے کور کمانڈر نے ایک تقریب میں کہا کہ ’منظور ہمارا اپنا بچہ ہے اور اگر غصے میں بھی ہے تو ہم ان کو سنیں گے۔‘

یہ وہ وقت تھا جب حکومت نے پی ٹی ایم کے ساتھ مذاکرات کے لیے ایک جرگہ بھی بنایا جس کی پی ٹی ایم کے رہنماؤں سے مختلف نشستیں بھی ہوئی تھیں۔

پی ٹی ایم کے مظاہروں اور جلسوں کا سلسلہ 2018 سے 2020 تک جاری رہا اور وہ اپنے مطالبات سے پیچھے نہیں ہٹے۔

پی ٹی ایم کے جلسوں اور جلوسوں میں تیزی تب آئی جب کراچی میں 2018 میں شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔

پی ٹی ایم بعد میں کچھ اختلافات کا بھی شکار ہوئی جب پی ٹی ایم کے معروف چہرے محسن داوڑ اور علی وزیر نے پارلیمانی سیاست میں قدم رکھا اور اراکین قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔

منظور پشتین نے اس وقت ان دونوں کی انتخابی سیاست میں حصہ لینے پر انڈیپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ’ہماری تحریک غیر پارلیمانی ہے اور رہے گی۔

’ہم پی ٹی ایم کے کسی حامی کو پارلیمانی سیاست سے منع نہیں کر سکتے اور ہماری تحریک میں تمام سیاسی جماعتوں کے لوگ موجود ہیں۔‘

محسن داوڑ اور پی ٹی ایم کے کئی سرگرم ساتھیوں نے پی ٹی ایم سے راہیں تب جدا کیں جب 2021 میں پی ٹی ایم کے بانی رکن محسن داوڑ نے نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔

 تاہم محسن داوڑ سمیت ان کی پارٹی کی جانب سے پی ٹی ایم کے بیانیے کو حمایت ملتی رہی اور پی ٹی ایم کی تقریبات اور جلسوں میں بھی محسن داوڑ سمیت ان کی پارٹی کے لوگ شریک ہوتے رہے۔

پی ٹی ایم کی ریاستی پالیسیوں کے خلاف سخت بیانیے کی وجہ سے کئی مرتبہ تنظیم کے سربراہ منظور پشتین اور دیگر ساتھیوں کو گرفتار بھی کیا گیا جس میں سابق رکن اسمبلی علی وزیر بھی شامل ہیں۔

 منظور پشتین اور ان کی تنظیم پر بیرون ممالک سے فنڈنگ لینے اور ملک میں لسانی تفریق پیدا کرنے کے الزامات بھی لگائے گئے۔

 پاکستان فوج کی جانب سے ماضی میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ’پی ٹی ایم کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے بیرون ملک سے فنڈنگ ملتی ہے۔‘

پی ٹی ایم کی سرگرمیوں میں 2021 کے بعد قدرے کمی آئی اور ان کے جلسے جلوس بھی محدود ہوتے گئے لیکن جب بھی وہ جلسہ کرتے تھے تو کثیر تعداد میں لوگ اس میں شریک ہوتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی دوران پی ٹی ایم کی میڈیا کوریج پر بھی غیر اعلانیہ پابندی عائد کی گئی جس کے بعد پی ٹی ایم نے اپنے بیانیے کی ترویج کے لیے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کرنا شروع کیا۔

سوشل میڈیا پر مرکزی اور علاقائی سطح پر تنظیم سازی کی گئی، اور علاقائی سطح پر مختلف سوشل میڈیا اکاؤنٹس بنائے گئے۔

 تاہم شروع سے ہی پی ٹی ایم اپنے مطالبات سے پیچھے نہیں ہٹی۔ حال ہی میں پی ٹی ایم نے ضلع خیبر میں 11 اکتوبر کو "’پشتون عدالت/جرگہ‘ کے نام سے ایک جرگہ منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے۔

 جس میں ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں، سماجی شخصیات اور سیاسی رہنماؤں کو دعوت دی گئی ہے۔

منظور پشتین کے مطابق یہ جرگہ پشتون خطے میں جاری بدامنی اور دیگر مسائل کے حل کے لیے مشترکہ بیٹھک ہو گی، جہاں اس کے حل کے لیے لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

اسی جرگے کے منتظمین کے خلاف حالیہ دنوں میں کریک ڈاؤن بھی کیا گیا تھا، جس کے خلاف عدالت میں ایک درخواست دائر کی گئی۔ دوران سماعت پشاور ہائی کورٹ نے پی ٹی ایم کو جرگہ کرنے کی اجازت دی تھی۔

تاہم اتوار چھ اکتوبر کو وفاقی حکومت نے ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے پی ٹی ایم پر ریاست مخالف بیانیے کی بنا پر پابندی عائد کر دی۔

وزارت داخلہ کے نوٹیفیکشن میں بتایا گیا کہ پی ٹی ایم کا نام شیڈول فور کے تحت کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان