ایگزیکٹو،عدلیہ سپریم کورٹ کا حکم ماننے کے پابند: چیف جسٹس

عدالت نے مارگلہ ہلز میں عمارتیں گرانے کے خلاف حکم امتناع دینے والے جوڈیشل مجسٹریٹ کا معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو بھجوا دیا اور ہدایت کی کہ ’اسلام آباد ہائی کورٹ دیکھے کہ اس معاملے پر کوئی ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔‘

20 اکتوبر 2022 کی تصویر میں سپریم کورٹ کی عمارت کا بیرونی منظر (انڈپینڈنٹ اردو)

چیف جسٹس پاکستان نے پیر کو سپریم کورٹ اسلام آباد میں مارگلہ ہلز نیشنل پارک توہین عدالت نوٹس واپس لیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ’آئین کے تحت ایگزیکٹو اور عدلیہ سپریم کورٹ کا حکم ماننے کے پابند ہیں۔‘

نجی ریسٹورنٹ کے مالک لقمان علی افضل کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس واپس لیتے ہوئے چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’سوشل میڈیا لائیکس اور ڈس لائیکس کے لیے اداروں سے کھیلا جا رہا ہے، بڑے بڑے تھمب نیل بنائے جاتے ہیں۔‘

چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ ’بظاہر حکم امتناع عدالتی احکامات کی نفی کرنے کے لیے جاری کیا گیا۔ کیا سوشل میڈیا اداروں اور ججز کو گالیاں دینے کے لیے ہیں؟ کیا مارگلہ ہلز واگزار زمین ججز کی ذاتی زمین ہے؟‘

عدالت نے مارگلہ ہلز میں عمارتیں گرانے کے خلاف حکم امتناع دینے والے جوڈیشل مجسٹریٹ کا معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو بھجوا دیا اور ہدایت کی کہ ’اسلام آباد ہائی کورٹ دیکھے کہ اس معاملے پر کوئی ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔‘ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’کمال ہے سول جج سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد روک رہے ہیں۔ کیا سول جج نے حکم امتناع دے کر توہین عدالت کی؟ اس قسم کے ججز کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ جج کو پہلے دیکھنا چاہیے دعویٰ پر ریلیف بنتا بھی ہے یا نہیں۔‘

ریسٹورنٹ کے وکیل احسن بھون نے عدالت کو بتایا کہ ’مارگلہ ہلز میں مونال ریسٹورنٹ کی عمارت کو مسمار کر دیا گیا۔ ہم نے پیشکش کی تھی کہ عمارت کو سرکار استعمال کر لے۔‘ اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ’ریسٹورنٹ کی عمارت کا مارگلہ ہلز کے جانور کیا کریں گے؟ ہمیں کہا گیا کہ ریسٹورنٹ خالی کرانے سے ملازم بے روزگار ہو گئے۔ پھر جنگل کو لکڑیاں کاٹنے والوں کو دے دیں۔ لکڑیاں کاٹنے والوں کا کاروبار چل نکلے گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جسٹس شاہد بلال نے ریمارکس دیے کہ ’جج انعام اللہ نے دعویٰ پر حکم امتناع جاری کیا۔ دعویٰ کی کورٹ فیس بھی جمع نہیں ہوئی۔ دعویٰ کورٹ فیس ادائیگی کے بغیر قابل سماعت نہیں تھا۔ پوری پنجاب کی ماتحت عدلیہ میں بھی یہی ہوتا ہے۔ وکلا جج کو دعویٰ پڑھنے نہیں دیتے اور حکم امتناع لے لیتے ہیں۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’عدالت کے خلاف سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کیا گیا۔‘ اس پر وکیل احسن بھون نے جواب دیا کہ ’میرے موکل کا پروپیگنڈے سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم نے متعلقہ جگہ کا قبضہ دے دیا، جگہ خالی کر دی۔ جس دعویٰ پر ریسٹورنٹ عمارت گرانے کا حکم امتناع دیا گیا تھا، وہ دو اکتوبر کو واپس لے لیا گیا۔‘

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کیا مارگلہ ہلز میں کمرشل سرگرمیوں کا معاملہ کسی میڈیا یا پارلیمنٹ میں اٹھایا گیا؟ توپوں کا رخ ججز کی طرف کر دیا جاتا ہے۔ ہمارا حکم غلط ہے تو اس پر اٹیک کریں، چیف آرڈر پر اٹیک کی بجائے اداروں پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ یہاں ٹائمنگ کی بات کی جاتی ہے۔ بتا دیا کریں فلاں کیس کب اور کس بینچ کے سامنے لگنا ہے۔‘

وکیل احسن بھون نے آرٹیکل 63 اے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’63 اے نظر ثانی سننے کی کئی درخواستیں کیں۔ 63 اے نظر ثانی ڈھائی سال کے بعد سماعت کے لیے مقرر ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس زیر التوا پڑا رہا کسی نے نہیں سنا۔ کیا اب پارلیمنٹ عدلیہ اور میڈیا میں گینگسٹر ازم سے فیصلہ ہوں گے؟ انتخابات کا فیصلہ 13 دن میں دیا۔ انتخابات کرانے کے فیصلے پر کسی نے گالی نہیں دی۔ انتخابات کیس میں کسی نے ٹائمنگ کا سوال نہیں اٹھایا۔‘

یاد رہے کہ گزشتہ ماہ 24 ستمبر کو اسلام آباد کی ضلعی عدالت نے ٹھیکیدار کی درخواست پر ہوٹل کی عمارت گرانے کے عمل پر حکم امتناع جاری کر دیا تھا اور وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کو روک دیا تھا۔ وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کو سپریم کورٹ کے حکم پر مارگلہ ہلز میں واقع مونال اور لا مونٹانا ہوٹلز کو مسمار کرنے اور مارگلہ نیشنل پارک کو اصلی حالت میں بحال کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان