سات اکتوبر 2023 کو حماس کی اسرائیل میں حیران کن کارروائی اور اس کے بعد اسرائیل کی جارحیت کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے اور اب جنگ کا خطے تک پھیلنے اور قابو سے باہر ہونے کا خطرہ ہے۔
12 مہینوں تک جاری رہنے والے انسانی بحران اور تباہی کے بعد بھی اسرائیل کے عوام صدمے کا شکار ہیں اور وہاں آئے دن بڑے پیمانے پر احتجاج ہو رہا ہے، سیاست دان کھل کر وزیرِ اعظم نتن یاہو کی جنگجویانہ پالیسیوں کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔
اسرائیل کی معیشت مشکلات کا شکار ہے، سیاحت کی صنعت مکمل ٹھپ ہے اور دنیا کے ساتھ اس کے سفارتی تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار ہیں۔
مالیاتی ادارے موڈی نے 2024 میں اسرائیل کی شرحِ نمو کو 1.5 فیصد تک سکڑنے کی پیش گوئی کی، جب کہ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق اسرائیل کی 18 فیصد ورک فورس جنگ کے دوران دفتروں سے غیر حاضر رہی ہے۔
ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق اسرائیل کو اس جنگ کے دوران ہر دن 26.9 کروڑ ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔
ان وجوہات کی بنا پر اس وقت اسرائیل ایک ایسے لمحے پر کھڑا ہے جو اس کے مستقبل کا تعین کر سکتا ہے۔
مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر اور ایسوسی ایٹڈ پریس سے وابستہ تجزیہ نگار ڈین پیری نے ’دا فارورڈ‘ میگزین میں لکھا: ’اسرائیل کی قیادت نے پورے سال کے دوران اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ حماس کا وجود غزہ کی پٹی میں برداشت نہیں کر سکتے۔
’وہ اپنی شمالی سرحد پر موجود حزب اللہ ملیشیا کو بھی مزید برداشت نہیں کر سکتا۔ وہ دونوں محاذوں پر انہی مقاصد کے تحت لڑ رہا ہے۔‘
مشرق وسطیٰ کے ایک اور ماہر رابرٹ سیٹلوف نے ’ڈیوک ٹوڈے‘ میں لکھا کہ مشرق وسطیٰ کے ایک ماہر نے پیر کو ڈیوک میں کہا کہ اسرائیل کی حماس کے خلاف فتح فلسطینی عوام کے مستقبل کے لیے دو اہم دروازے کھول سکتی ہے۔
رابرٹ سیٹلوف کے مطابق: ’یہ فلسطینی اتھارٹی اور اس کے شراکت دار کے کردار کے لیے ایک بہت بڑا موقع فراہم کرتا ہے۔ حماس کے ساتھ ہم جانتے ہیں کہ سفارت کاری کا کوئی موقع نہیں ہے۔ حماس کے بعد کی صورت حال میں سفارت کاری کا ایک بہت بڑا موقع میسر ہو گا۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’میں چاہتا ہوں کہ فلسطینیوں کی اپنی زمین ہو، ان کی اپنی حکومت ہو اور وہ امن سے رہیں تاکہ ان کے بچے اپنی حکومت کے تحت پروان چڑھ سکیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان معاہدے کے ذریعے پرامن اور معمول کے تعلقات قائم کیے جا سکتے ہیں اور دوسرا سعودی امریکی باہمی دفاعی معاہدہ ہے جو مکمل طور پر جنگ سے باہر نکلنے کا راستہ ہو سکتا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جسے سعودی بھی کرنے کے خواہش مند ہیں۔‘
مشرق وسطیٰ کے امور پر گہری نظر رکھنے والی شینڈی ریئس نے وال سٹریٹ جرنل میں لکھا کہ ’حماس کے حملے نے اسرائیل کے دو دہائیوں پر مشتمل سنہری دور کا خاتمہ کر دیا جو نسبتاً امن، خوشحالی اور بڑھتے ہوئے سفارتی تعلقات کے ساتھ ترقی کی منازل طے کر رہا تھا۔‘
اسرائیل کے قومی سلامتی کے سابق مشیر یاکوف امدرور نے کہا ہے کہ ’حفظ ماتقدم کے تحت لڑے جانے والی جنگیں اسرائیلی پالیسی کا حصہ ہوں گی۔
’یہ نئی حکمت عملی کے اثرات اسرائیلی معاشرے کے تقریباً ہر حصے، مشرق وسطیٰ کی جغرافیائی سیاست کو نئی شکل دینے اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کو متزلزل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جو اسرائیل کے سفارتی اہداف کو بھی متاثر کرے گی جو ایران کے خلاف عرب ریاستوں کے ساتھ مل کر ایک علاقائی اتحاد بنانا چاہتا ہے۔‘
سعودی عرب نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو اس وقت تک معمول پر نہیں لائے گا جب تک کہ فلسطینی ریاست کے لیے کوئی قابل اعتبار راستہ نہ ہو۔
یہ ایسا خیال ہے جو اسرائیل میں اب بھی غیر مقبول ہے اور اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کی موجودہ دائیں بازو کی حکومت اس کے لیے کبھی تیار نہیں ہو گی۔
ڈین پیری لکھتے ہیں کہ حماس کو ختم کرنے کی کوشش میں غزہ کی پٹی کو پوری طرح تباہ کر دیا گیا ہے۔ حماس کو یہ سزا غزہ میں شہریوں کی جانوں کی ایک ہولناک قیمت پر دی گئی ہے۔
لیکن اسرائیل واضح طور پر غزہ میں حماس کے بعد کیا چاہتا ہے اس کے لیے وہ کوئی بھی خاکہ پیش کرنے میں ناکام رہا ہے اور یہ ناکامی کوئی اتفاقی بات نہیں ہے۔
وزیر اعظم نتن یاہو کی حکومت کا انحصار ان کٹر پارٹیوں پر ہے جن کا عربوں کے ساتھ تنازع ہے۔ ایسی حکومت واضح طور پر امن منصوبہ نہیں بنا سکتی۔
ڈین نے کہا کہ بغیر کسی ٹھوس وژن کے حماس کو ہٹانے کی مبہم حکمت عملی ایک ایسے صورت کا باعث بنی ہے جو ایک تلخ ماضی کی بازگشت ہو گی، یعنی غزہ پر اسرائیلی فوجی قبضہ، ممکنہ طور پر ایک طویل شورش کا باعث بنے گا۔
یہ امکان لاجسٹک اور سکیورٹی سر درد سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ اسرائیل کی جمہوریت اور یہودی ریاست کے طور پر طویل مدتی عمل داری پر سوالات اٹھاتا ہے۔
غزہ پر دوبارہ قبضہ مؤثر طریقے سے اسرائیل کو ایک ریاستی ماڈل پر واپس لے آئے گا، جو طویل مدت میں نہ تو پائیدار تھی اور نہ ہی جمہوری۔
اس منظر نامے میں اسرائیل مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ غزہ کو کنٹرول کرے گا۔ ان دونوں علاقوں میں 50 لاکھ سے زیادہ فلسطینی آباد ہیں۔
ان فلسطینیوں کو اسرائیلی شہریت حاصل نہیں ہو گی اور نہ ہی ان کو حکومت کے انتخاب میں ووٹنگ کا حق ہو گا۔
اگر اسرائیل اتنی بڑی آبادی پر حکومت کرنا چاہتا ہے تو وہ جمہوریت ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔
اس راستے کی منزل سفارتی تنہائی ہے۔ 1980 کی دہائی میں نسل پرست حکومت والے جنوبی افریقہ پر عالمی اقتصادی پابندیاں اور سفارتی تنہائی کے بعد یہاں دیکھی گئی غیر معمولی جدوجہد کے بعد مساوی حقوق کا حتمی نفاذ سامنے آیا، ایسا ہی کچھ ایک اور جمہوری ریاست کا باعث بنے گا جسے فلسطین کہا جائے گا۔
جنگ کے بعد کے چھ ممکنہ منظرنامے
ان منظرناموں کا جائزہ لینے سے پہلے یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ غزہ پر جنگ کے بعد کے کی صورتِ حال کا سوال ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے جس کا جواب اسرائیل کو دینا ہے، خاص طور پر اس کے بعد جب غزہ کی پٹی کے باشندوں کو مصر منتقل کرنے کا منصوبہ ناکام ہو گیا ہے۔
جنگ کے پہلے دنوں میں اسرائیل نے مغربی ممالک کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی تاکہ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جا سکے، لیکن اس منصوبے کو عرب اور بین الاقوامی مخالفت کی وجہ سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
خاص طور پر مصر کی جانب سے جس نے اپنی سرزمین کھولنے سے سختی سے انکار کیا۔ ساتھ ہی غزہ کے باشندوں نے بھی جلاوطنی کو مسترد کر دیا۔
نتن یاہو اور اسرائیلی جنگی کابینہ نے غزہ کی پٹی میں زندگی کے تمام پہلوؤں کو تباہ کرنے کی طرف توجہ دی، جیسے پانی، توانائی، اور صفائی کے نظام کو نشانہ بنانا، ہسپتالوں، سکولوں، گرجا گھروں اور مساجد پر بمباری کرنا، ساتھ ہی ساتھ تمام سرکاری دفاتر، رہائشی عمارات، اور سینکڑوں ہزاروں رہائشی یونٹوں کو ملبے میں تبدیل کر دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایندھن کی فراہمی مسدود کر دی اور خوراک اور طبی امداد کی فراہمی کو محدود کر دینا۔ اس کے نتیجے میں غزہ کی زندگی کو موت کے اختیار کے تابع کرنے کی کوشش کی گئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی انتظامیہ جنگ کے بعد غزہ کی پٹی کے انتظام و انصرام کے لیے ممکنہ منظرنامے تیار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
جنگ کے پہلے مہینوں میں امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے اسرائیل اور مشرقِ وسطیٰ کے ملکوں کے متعدد دورے کیے جن کا مقصد جنگ کے بعد کی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کرنا تھا۔
تاہم امریکہ ہر ممکن طریقے سے اسرائیلی موقف سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہے، اس لیے ان کی کوششوں کو پذیرائی نہیں مل سکی۔
عرب ریفارم انیشی ایٹو نامی ویب سائٹ نے غزہ کی پٹی پر جاری اسرائیلی جنگ کے بعد کے ممکنہ چھ منظرنامے پیش کیے ہیں:
حماس پر اسرائیلی کنٹرول
اسرائیل کا دباؤ حماس کو ختم نہیں کرے گا، لیکن اسے اس بات پر مجبور کر دے گا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرے، تشدد کو ترک کرے، اور ایک سیاسی راستہ اپنائے۔
اس سے حماس کمزور ہو جائے گی اور غزہ کی تعمیر نو میں حصہ لے گی، جبکہ اسرائیل اپنے سکیورٹی اقدامات کو جاری رکھے گا۔
اسرائیل کا حتمی مقصد حماس کو غیر موثر بنانا ہے، جیسا کہ 1980 کی دہائی میں پی ایل او کے ساتھ کیا گیا تھا۔ تاہم، اس سے حماس کے اندر داخلی پھوٹ پڑ سکتی ہے اور اسے ایران اور حزب اللہ جیسے مزاحمتی اتحادیوں کی حمایت کھونی پڑ سکتی ہے۔
بین الاقوامی اور علاقائی نگرانی
اگر حماس شکست کھا جاتی ہے تو بین الاقوامی اور عرب ممالک غزہ کی تعمیر نو اور سکیورٹی کے معاملات سنبھال سکتے ہیں۔
تاہم، مزاحمتی دھڑے اس کی مخالفت کرتے ہیں، اور یہ منظرنامہ فلسطینی اتھارٹی کی شراکت داری اور بین الاقوامی قانونی جواز پر منحصر ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کی غزہ میں واپسی
اسرائیل جنگ کے بعد پی اے کو غزہ کا کنٹرول دے سکتا ہے، جس سے وہاں کی سکیورٹی کو منظم کیا جائے گا اور ممکنہ طور پر فلسطینی انتخابات اور اصلاحات کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
تاہم، فتح اور حماس کے درمیان سیاسی حریف ہونے کی وجہ سے اس عمل میں پیچیدگیاں آ سکتی ہیں، اور اسرائیل پی اے کو مزاحمت کے باقی ماندہ مراکز کو ختم کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
اسرائیلی شہری انتظامیہ
اسرائیل 1994 کے اوسلو معاہدے سے پہلے کی طرح غزہ کے بعض علاقوں پر دوبارہ براہ راست فوجی اور شہری کنٹرول قائم کرے گا۔
تاہم، یہ اسرائیل کے لیے مالی اور سیاسی طور پر مہنگا ثابت ہو گا اور اسے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکہ اور یورپ نے اس نئے قبضے کے خیال کو مسترد کر دیا ہے۔
قبائلی تعلقات کا ماڈل
اسرائیل مقامی خاندانوں اور قبائلی رہنماؤں کے ذریعے غزہ میں مقامی انتظامیہ قائم کرنے کی کوشش کر سکتا تاکہ وہ اسرائیلی نگرانی میں معاملات کو سنبھال سکیں۔ لیکن فلسطینیوں اور مزاحمتی تنظیموں نے اسے دھوکہ قرار دے کر سختی سے مسترد کیا ہے۔
مصر کی انتظامیہ
مصر غزہ کی سکیورٹی اور تعمیر نو کے لیے قدم بڑھا سکتا ہے، کیونکہ اس کے پاس ماضی کا تجربہ اور اپنے سٹریٹیجک مفادات مثلاً گیس کے ذخائر موجود ہیں۔
مصر براہ راست غزہ کو کنٹرول نہیں کرے گا لیکن انٹیلی جنس خدمات کے ذریعے اثر و رسوخ حاصل کرے گا۔
تاہم یہ منظرنامہ مصر کے لیے بہت پرکشش نہیں ہے اور فلسطینی اتھارٹی اس کی مخالفت کرے گی، کیونکہ وہ اسے فلسطینی ریاست کے خلاف سمجھتی ہے۔
ہر منظرنامے میں مواقع کے ساتھ ساتھ چیلنجز بھی شامل ہیں۔ اب دیکھنا ہو گا کہ ان میں سے کون سے روبہ عمل آتا ہے۔