شہروز سمیت ریکارڈ کوہ پیما تبت میں چوٹی سر کرنے کے لیے موجود

یہ کوہ پیما پہلے ہی نیپال اور پاکستان میں واقع آٹھ ہزار میٹر سے زائد بلندی کی 13 چوٹیوں کو سر کر چکے ہیں اور اب وہ رواں ماہ تبت میں 14 ویں چوٹی سر کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

کوہ پیماؤں کی ایک ریکارڈ تعداد دنیا کی بلند ترین 14 چوٹیوں کو سر کرنے کے خواب کی تکمیل لیے تبت میں موجود ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق صرف 50 کوہ پیماؤں نے ہی اب تک پاکستان، نیپال اور تبت میں واقع آٹھ ہزار میٹر سے بلند ان تمام چوٹیوں کو سر کیا ہے، جو ایک ایسا کارنامہ ہے جسے مکمل کرنے میں انہیں کئی برس اور کچھ کو تو دہائیاں لگیں۔

اب تقریباً 20 کوہ پیما رواں ماہ یہ سنگ میل عبور کرنے کے لیے کوشاں ہیں، جن میں سے کچھ بلاک بسٹر نیٹ فلکس دستاویزی فلم ’14 پیکس: نتھنگ از امپاسیبل‘ سے متاثر ہو کر اس مہم جوئی پر نکلے ہیں۔

تکنیکی میدان میں ترقی نے اس خواب کو کو پورا کرنا آسان بنا دیا ہے۔

پاکستانی کوہ پیما 22 سالہ شہروز کاشف نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہم ایک کمیونٹی کے طور پر بڑھ رہے ہیں اور ہم پوری دنیا میں کوہ پیمائی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا: ’مجھے لگتا ہے کہ یہ بہت اچھا ہے کہ وہ میری طرح اپنا خواب پورا کر رہے ہیں۔‘

اطالوی کوہ پیما رین ہولڈ میسنر کو 1986 میں پہلی چوٹی سر کرنے کے بعد یہ تمام 14 چوٹیاں سر کرنے والا دنیا کا پہلا کوہ پیما بننے میں 16 سال لگے تھے۔

تاہم چینی خطے میں ماؤنٹ شیشا پنگما کے بیس کیمپ میں جمع ہونے والے ان زیادہ تر کوہ پیماؤں نے حالیہ چند سالوں میں ہی اپنی کوششیں شروع کیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ کوہ پیما پہلے ہی نیپال، پاکستان، تبت اور انڈیا کو گھیرے ہوئے ہمالیہ اور قراقرم کے سلسلے میں واقع 13 دیگر بلند ترین چوٹیوں کو سر کر چکے ہیں۔

بہت سے کوہ پیما گذشتہ سال اس وقت سے ہی 8,027 میٹر اونچی تبتی چوٹی کو سر کرنے کا انتظار کر رہے ہیں، جب چین نے دو امریکی خواتین اور ان کے نیپالی گائیڈ کی برفانی تودے تلے دب کر موت واقع ہونے کے بعد کوہ پیماؤں کے لیے اس پہاڑ کو بند کر دیا تھا۔

ان کوہ پیماؤں میں سابق فوجی اور ابھرتے ہوئے ستارے بھی شامل ہیں۔

18 سالہ نیپالی کوہ پیما نیما رنجی شیرپا کا مقصد تمام 14 چوٹیاں سر کرنے والا سب سے کم عمر کوہ پیما بننا ہے۔

اس چوٹی کو سر کرنے کے بعد بہت سے لوگ اپنے اپنے ممالک سے یہ کارنامہ انجام دینے والے پہلے کوہ پیما بن جائیں گے۔

کوہ پیمائی کی ٹیکنالوجی، موسم کی پیشگوئی اور لاجسٹک سپورٹ میں پیشرفت نے اس ہدف کو زیادہ قابل حصول بنا دیا ہے، خاص طور پر ان افراد کے لیے جو اس کے مالی اخراجات برداشت کر سکتے ہیں۔

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

A post shared by Mingma G (@mingma.g)

نیپال کی کوہ پیما مہم کی سب سے بڑی کمپنی سیون سمٹ ٹریکس سے وابستہ منگما شیرپا نے اے ایف پی کو بتایا کہ کوہ پیماؤں کو اس مہم جوئی کے لیے سات لاکھ ڈالر تک خرچ کرنا پڑ سکتے ہیں۔

ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ زیادہ قیمتوں نے بھی کوہ پیماؤں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو اس کوشش سے باز نہیں رکھا۔

روسی کوہ پیما الینا پیکووا، جو تبت کی چوٹی سر کرنے کی مہم میں شامل ہیں، نے کہا کہ تیز رفتاری سے چڑھائی برداشت کا امتحان ہے۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’اگر آپ تیز رفتاری سے اس پر چڑھ سکتے ہیں تو کوشش کیوں نہیں کرتے؟ یہ ایک اور چیلنج ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل