عہد وسطیٰ میں برطانوی معاشرہ دو طبقوں میں تقسیم تھا۔ جاگیردارانہ یعنی فیوڈل اور عوام۔
عوام میں کسان، مزدور، کاریگر اور چھوٹے دکاندار شامل تھے۔ اس دور میں متوسط طبقے کا کوئی وجود نہیں تھا۔
صنعتی انقلاب نے برطانوی معاشرے کی تشکیل کو بدل ڈالا۔ فیکٹری سسٹم نے ورکنگ کلاس کو پیدا کیا اور اس کے ساتھ ہی ریاست کے دوسرے اداروں میں بھی انتظامی تبدیلیاں آئیں اور ضرورت کے تحت تعلیم یافتہ متوسط طبقے کی ضرورت پیش آئی، لہٰذا معاشرہ دو بڑے طبقوں میں تقسیم ہو گیا۔
ورکنگ کلاس کو بلو کالر کہا گیا اور متوسط طبقے کو وائٹ کالر کا نام دیا گیا۔
متوسط طبقے میں جو لوگ شامل تھے ان میں کلرکس، اساتذہ، اکاؤنٹنٹس، سرمایہ دار تاجر، دکاندار اور مختلف فنون کے ماہرین شامل تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
متوسط طبقے اور ورکنگ کلاس میں فرق یہ تھا کہ ورکرز نے ٹریڈ یونینز کو منظم کیا تھا، جو ان کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتی تھیں، لیکن متوسط طبقے نے کسی یونین کی بنیاد نہیں ڈالی۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ مزدوروں کے مقابلے میں ان کی تعداد کم تھی۔ دوسرا وہ اتھارٹی کے خلاف کوئی تحریک چلانا نہیں چاہتے تھے، اس ڈر سے کہ انہیں ملازمت سے نہ نکال نہ دیا جائے۔
متوسط طبقے کی تشکیل اور اس کے کردار پر جیفری کروسکک کی کتاب ’The Lower Middle Class in Britain‘ ہے، جس میں انہوں نے تفصیل کے ساتھ نچلی سطح کے متوسط طبقے کے کردار کا تجزیہ کیا ہے۔
یہ متوسط طبقہ جن حالات میں تشکیل پایا، اس میں اپنے وجود کو برقرار رکھنا بہت مشکل تھا۔ سیاسی لحاظ سے اس طبقے کے نظریات قدامت پسند تھے۔
یہ معاشرے میں نہ تو کوئی انقلاب چاہتے تھے اور نہ ہی کوئی بڑی تبدیلی۔ حالانکہ انیسویں صدی کا یورپ انقلابوں اور تبدیلیوں سے گزر رہا تھا۔ قدامت پرستی میں یہ اپنے وجود اور اپنی جائیداد کا تحفظ دیکھتے تھے۔
اگرچہ ہندوستان میں اس وقت کئی مذہبی فرقے تھے اور یہ کسی نہ کسی فرقے کے عقیدے کو مانتے تھے۔
اس کی وجہ سے ان میں جو اخلاقی قدریں پیدا ہوئیں، ان میں ایمانداری، دیانت، فرض کی ادائیگی، معاشرے کی پابندی وغیرہ شامل تھیں، جس کی وجہ سے روزمرہ کے معاملات میں کوئی تلخی پیدا نہیں ہوتی تھی۔
متوسط طبقہ اپنے لڑکوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم کے مواقع دیتا تھا، لیکن ملازمت کے لیے لیاقت اور ذہانت کے ساتھ سفارش کی بھی ضرورت ہوتی تھی۔ لہٰذا جو مراعات یہ ایک مرتبہ حاصل کر لیتے تھے اس کو ہر صورت میں برقرار رکھنا چاہتے تھے۔
متوسط اور ورکنگ کلاس کے درمیان علیحدہ علیحدہ کلچر کی بنیاد پڑی۔ متوسط طبقہ شہر کے مقامات میں تین سے چھ کمروں والے مکان میں رہنا پسند کرتا تھا۔
اس کے معیار کے مطابق گھر میں ملازم کا ہونا بھی ضروری تھا، جو اس کی عزت اور وقار کا باعث تھا۔
عورتیں محنت و مشقت کا کام نہیں کرتی تھیں، کیونکہ اس کا تعلق ورکنگ کلاس سے تھا۔ گھر میں پیانو بھی ہوتا تھا اور اعلیٰ درجے کا فرنیچر۔
اس کے مقابلے میں ورکنگ کلاس کا علاقہ دو کمرے کے مکانوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ تنگ گلیاں ہوتی تھیں، تفریح کے مواقع بھی کم ہوتے تھے۔ متوسط طبقے کے علاقے میں دکانوں پر ہر قسم کا مال دستیاب ہوتا تھا، لیکن مزدوروں کے علاقے میں دکاندار وہی اشیا رکھتا تھا جو وہ خریدنے کی طاقت رکھتے تھے۔
متوسط طبقے نے اپنی معاشی خوشحالی، سازگار ماحول اور خوشگوار گھریلو زندگی کی وجہ سے ادب، آرٹ، موسیقی اور دوسرے فنون لطیفہ میں حصہ لیا اور برطانوی کلچر کو ایک نئی توانائی دی۔
طبقاتی تقسیم کی وجہ سے ورکنگ کلاس غربت اور مفلسی میں مبتلا رہی۔ روزی کے لیے انہوں نے محنت و مشقت کی لیکن اس کے باوجود انہیں معاشرے میں وہ سماجی رتبہ نہیں ملا، جس کے یہ مستحق تھے جبکہ متوسط طبقے کو سازگار ماحول ملا، جس کی وجہ سے اس نے برطانوی کلچر میں اضافہ کیا۔
طبقاتی معاشرے کی تاریخ سے اندازہ ہوتا ہے کہ جو جس طبقے میں پیدا ہو جائے اس کے لیے ترقی کے راستے بند ہو جاتے ہیں کیونکہ یہاں ذہانت کے بجائے یہ دیکھا جاتا ہے کہ فرد کا تعلق کس طبقے اور خاندان سے ہے۔
اس لیے بہت کم ایسی مثالیں ہیں کہ کچھ افراد نے انفرادی طور پر نچلی سطح سے ابھر کر اعلیٰ طبقے میں شمولیت حاصل کی ہو۔ برطانوی معاشرے میں اس کی مثالیں بہت کم ہیں، لیکن وہ افراد جن کا تعلق نچلے طبقوں سے تھا اور انہوں نے امریکہ میں جا کر اپنی ذہانت سے اعلیٰ مقام حاصل کیا، اسے Rag to Riches کہتے ہیں۔
پاکستان کا معاشرہ بھی اعلیٰ اور نچلے طبقات میں منقسم ہے۔ ان دونوں طبقات میں فرق بھی ہے اور دوری بھی۔ نچلے طبقے کے افراد کے لیے ذہین ہونے کے باوجود ترقی کرنا مشکل ہوتا ہے، لیکن یہی نوجوان یورپ اور امریکہ میں اپنی لیاقت سے اعلیٰ مقام حاصل کر لیتے ہیں۔