برطانوی فسادات نے جیلوں کو ’بریکنگ پوائنٹ‘ پر پہنچا دیا

انتہائی دائیں بازو کے فسادات نے برطانیہ کی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد کو انتہائی حد تک پہنچا دیا ہے اور حکومت نے رش کم کرنے کے لے ہنگامی اقدامات کا آغاز کر دیا ہے۔

سات ستمبر 2023 کی اس تصویر میں جنوبی لندن میں ایچ ایم جیل وینڈز ورتھ کے گیٹ پر ایک جیل گارڈ ڈلیوری وین کو اشارہ کر رہی ہے (جسٹن ٹیلس/ اے ایف پی)

انتہائی دائیں بازو کے فسادات نے برطانیہ کی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد کو انتہائی حد تک پہنچا دیا ہے، جس کے بعد حکومت نے رش کم کرنے کے لے ہنگامی اقدامات کا آغاز کر دیا ہے۔

بڑے پیمانے پر ہنگامے کے بعد کم از کم 677 مشتبہ فسادیوں پر الزامات عائد کیے جانے کے بعد ماہرین کو خدشہ ہے کہ قیدیوں کو جلد رہا کرنے سے  بمشکل  پیدا کی گئی گنجائش تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔

مرسی سائیڈ میں، جہاں  گذشتہ ماہ سکول کی تین طالبات کے قتل کے بعد پہلی بار جھڑپیں شروع ہوئی تھیں، افواہیں تھیں کہ ہفتے کے آخر میں جیلوں میں صرف دو قیدیوں کی جگہیں رہ گئی تھیں کیونکہ فسادیوں کو سماعت کے دوران عدالتوں کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔

یہ کریمنل جسٹس سسٹم کو متاثر کرنے والا تازہ ترین بحران ہے۔

لا سوسائٹی میں فوجداری قانون کمیٹی کے سربراہ سٹورٹ نولن نے کہا کہ فسادات ’اونٹ کی پشت توڑنے والا آخری تنکا‘ تھے۔

انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’جب آپ کے پاس ایک دائمی صورت حال ہوتی ہے تو آپ کو صرف ایک شدید مسئلے کی ضرورت ہوتی ہے اور پوری صورت حال مشکل ہو جاتی ہے۔‘

گذشتہ ہفتے کے آخر تک کم از کم 460 افراد مجسٹریٹ کی عدالتوں میں پیش ہوئے تھے۔

جیل افسران کی ایسوسی ایشن کے سربراہ مارک فیئر ہرسٹ نے کہا کہ 397 نئے قیدیوں کی آمد کے بعد ملک بھر میں مردوں کی جیل میں صرف 340 جگہیں باقی رہ گئی ہیں۔

پیر کو مرسی سائیڈ سمیت شمالی علاقوں میں شروع ہونے والے آپریشن ارلی ڈان کو ’ون ان ون آؤٹ‘ پالیسی قرار دیا گیا ہے جس کے تحت مدعا علیہان کو پولیس سیلوں میں رکھا جائے گا اور جیل میں جگہ دستیاب ہونے تک مجسٹریٹ کی عدالت میں طلب نہیں کیا جائے گا۔ 

خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر جیلوں میں جگہ نہ ملی تو اس اقدام سے مشتبہ افراد کو پولیس کی ضمانت پر رہا کیا جا سکتا ہے، حالانکہ وزرا کا اصرار ہے کہ عوام کے لیے خطرہ بننے والے کسی بھی شخص کو رہا نہیں کیا جائے گا۔

وزیراعظم نے اعتراف کیا کہ ان کی حکومت ’مشکل فیصلے‘ کر رہی ہے کیونکہ کئی ہفتوں سے جاری پرتشدد بدنظمی نے ٹوریوں سے وراثت میں ملنے والے جیلوں کے نظام پر ’اضافی دباؤ‘ ڈال دیا ہے۔

ڈاؤننگ سٹریٹ کا کہنا ہے کہ نارتھ ایسٹ اور یارکشائر، کمبریا اور لنکاشائر۔ اور مانچسٹر، مرسی سائیڈ اور چیشائر کے علاقوں میں نافذ العمل منصوبے اگلے چند ہفتوں میں کئی بار فعال اور غیر فعال ہو سکتے ہیں۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا بیلفاسٹ کے دورے کے دوران ہنگامی اقدامات سے عوامی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے، سر کیئر سٹارمر نے کہا کہ حکومت ’واقعی سخت فیصلے کر رہی ہے، اور کوئی بھی یہ فیصلے کرنا نہیں چاہتا‘ کیونکہ پچھلی کنزرویٹو انتظامیہ کی ’بنیادی ناکامی‘ کی وجہ سے جیلوں میں کافی گنجائش دستیاب نہیں تھی۔

گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی تعداد کم کرنے کے لیے اعلان کردہ طویل مدتی اقدامات، جن کے تحت کچھ قیدی اپنی سزا کا صرف 40 فیصد جیل میں گزاریں گے، 10 ستمبر تک نافذ العمل نہیں ہوں گے۔

ایس ڈی ایس 40 سکیم – جو جنسی جرائم ، دہشت گردی ، گھریلو تشدد یا کچھ پرتشدد جرائم کے مجرموں پر لاگو نہیں ہوتی ہے – کے نتیجے میں ستمبر اور اکتوبر میں ساڑھے پانچ ہزار مجرموں کا رہا ہونے متوقع ہے۔

جیل اصلاحات ٹرسٹ (پی آر ٹی) نے متنبہ کیا ہے کہ سینکڑوں فسادیوں کی آمد کے بعد جیل میں کوئی خالی جگہ نہ بچنے کی وجہ سے آنے والے مہینوں میں بڑھتے ہوئے دباؤ کو کم کرنے کے لیے مزید ممکنہ اقدامات کے ساتھ آپریشن ارلی ڈان کو وسعت دینے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

دی انڈپینڈنٹ کی رپورٹ کے مطابق فوجداری انصاف کے رہنماؤں کی جانب سے کئی ماہ سے جاری انتباہ کے بعد یہ فیصلہ سامنے آیا ہے کہ جیلوں کا نظام بریکنگ پوائنٹ پر ہے۔

پی آر ٹی میں پالیسی اور مواصلات کے عبوری سربراہ ایلکس ہیوسن نے کہا: ’میرے خیال میں یہ ایک پریشان کن وقت ہے کیونکہ حکومت نے ایس ڈی ایس 40 متعارف کروا کر جو گنجائش پیدا کی تھی وہ تیزی سے ختم ہو گئی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ کچھ مشکل مہینے ہوں گے جب وہ اس کا حل نہیں نکال لیتے۔
’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نظام میں کتنی کم لچک ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مسٹر نولان نے کہا کہ آپریشن ارلی ڈان کے تحت اعلان کردہ ہنگامی اقدامات قلیل مدتی دباؤ کو کم کرنے میں مدد کرنے کے لیے ڈیزائن کیے گئے ہیں، لیکن طویل مدتی مسئلے کو حل نہیں کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا، ’ اس سے جو امید ہے وہ یہ ہے کہ اہم جگہوں سے زیادہ دباؤ کم کیا جائے۔ لیکن یہ مسئلہ حل نہیں کرتا۔ یہ صرف اسے منتقل کرتا  اور کچھ وقت کی مہلت دیتا ہے۔
ہاورڈ لیگ فار پینل ریفارم کے اینڈریو نیلسن کا کہنا ہے کہ ہنگامی اقدامات ’تشویش ناک‘ ہیں لیکن اس سے اس وقت تک جیل کی حالت کو برقرار رکھنے میں مدد ملے گی جب تک کہ جلد از جلد خود بخود رہائی کے اقدامات نافذ نہیں ہو جاتے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں واضح طور پر ایسے فیصلے ہوں گے جو روزانہ کی بنیاد پر کیے جائیں گے جو ارلی ڈان کے کام کا حصہ ہیں۔ یہحکومت کے لیے اگلے چند ہفتوں میں انتظام کرنے کا ایک ذریعہ ہیں۔ یہ درحقیقت عدالتوں، پولیس تحویل اور جیل کے درمیان روز مرہ کے دباؤ کو سنبھال رہی ہے۔‘

دریں اثنا، مجسٹریٹ ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ وہ سماعت میں تاخیر کے بارے میں ’بہت فکرمند‘ ہیں جس سے عدالت کے بیک لاگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔

چیف ایگزیکٹو ٹام فرینکلن نے کہا کہ انہیں یقین دلایا گیا ہے کہ ایس ڈی ایس 40 سکیم کے نفاذ کے بعد دباؤ کم ہوجائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’تاخیر کے شکار  ہر کیس کے متاثرین، گواہوں اور مدعا علیہان کی حقیقی زندگی پر اثرات ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں مجسٹریٹ اور عدالتی عملہ انصاف فراہم کرنے کے بجائے انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ یہ وسائل کا ضیاع ہے، ایک ایسے وقت میں جب پہلے ہی بڑے پیمانے پر بیک لاگ ہیں۔

یہ ہنگامی اقدام – اگرچہ ضروری ہے – لیکن فوجداری نظام انصاف کی خستہ حالی اور انصاف کے عمل کے ہر مرحلے میں مزید وسائل کی ضرورت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔

نیشنل پولیس چیفس کونسل کے سربراہ ڈپٹی چیف کانسٹیبل نیو کیمپ کا کہنا تھا کہ ’پولیس عوام کو محفوظ رکھنے کے لیے ہر اس شخص کو گرفتار کرتی رہے گی جس کو گرفتار کرنی کی انہیں ضرورت پڑے گی، جس میں مظاہروں اور تقریبات کی پولیسنگ اور اس بات کو یقینی بنانا بھی شامل ہے کہ لوگوں کو توقع کے مطابق گرفتار کیا جائے۔‘

قبل ازیں کنزرویٹو حکومت کی جانب سے مئی میں جیلوں میں قیدیوں کی تعداد سے نمٹنے کے لیے آپریشن ارلی ڈان شروع کیا گیا تھا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ