پاکستان زیر انتظام کشمیر کے پہاڑوں میں یہ موسم گھاس کٹائی کا موسم ہے جس میں زمیندار اپنے جانوروں کے لیے استعمال ہونے والا چارہ پورے سال کے لیے اکٹھا کرتے ہیں۔
اس رسم میں گاوں کے لوگوں کو باقاعدہ دعوت دے کر گھاس کاٹنے کے موقع پر بلایا جاتا ہے جسے ’لیتری‘ کہا جاتا ہے۔
یہ رسم ان علاقے کے لوگوں کے لیے بھائی چارے اور اخوت کی ایک مثال ہے جو صدیوں سے چلی آرہی ہے۔
ڈھول کی تھاپ پر نعروں اور رقص سے جواب دیتے لوگ جو ہاتھ میں درانتی لیے گھاس کاٹنے میں مصروف ہوتے ہیں یہ بغیر اجرت یہ کام سر انجام دیتے ہیں۔
پاکستان زیر کشمیر کا بیشتر رقبہ پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے جہاں موسم گرما میں موسم معتدل ہونے کے بعد موسم سرما میں شدید سردی پڑتی ہے اور برفباری کے بعد ان علاقوں میں نقل حرکت محدود ہوجاتی ہے۔
موسم سرما کی آمد سے قبل ہی خزاں کے دوران پت جھڑ کے بعد درختوں پر سبزے کے بجائے زردی چھا جاتی ہے۔
ایسے موسمی حالات میں جب برفباری سے راستوں کی بندش سمیت دیگر مسائل انسانوں کی روز مرہ زندگی کو متاثر کرتے ہیں وہیں اس موسم میں انسانوں اور پالتو جانوروں کی خوراک کے مسائل بھی درپیش آتے ہیں۔
پہاڑی علاقوں میں رہنے والے لوگ نا صرف موسم سرما میں اپنے لیے خوراک ذخیرہ کرتے ہیں بلکہ اپنے پالتو جانوروں کے لیے بھی خوراک کا انتظام کرتے ہیں۔
پہاڑوں میں رہنے والے گرمی کا موسم ختم ہونے اور سردیاں شروع ہونے کے درمیان کے ایک مہینے کے دوران جسے دیسی زبان ’اسو‘ کہا جاتا ہے پہاڑوں پر موجود قدرتی خود رو گھاس کو کاٹتے ہیں اور اسے سردیوں کے چھ مہینے کے لیے ذخیرہ کرتے ہیں۔
فلک بوس پہاڑوں پر گھاس کٹائی کرنا انتہائی محنت طلب کام ہے جو کسی اکیلے انسان کے بس کا کام نہیں ہے۔
اس کام کے لیے ان علاقوں کے باسی صدیوں پرانی ثقافتی رسم ’لیتری‘ کا سہارا لیتے ہیں۔
لیتری دراصل ہندی پہاڑی زبان کا لفظ ہے جسکے معنی ’کاشت کاری، سبزہ کاٹنا، گھاس کاٹنا‘ ہیں۔
پہاڑی دیہاتوں میں رہنے والے اس رسم کو باقائدہ ایک تہوار کے طور پر مناتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
موسم گرما ختم ہوتے ہی اسو کے مہینے میں گاوں کے لوگ اپنے گاوں کی مسجد میں یا لوگوں کے گھروں میں دعوت بھیج کر اس بات کا اعلان کرتے ہیں فلاں دن ہمارے گھر لیتری ہے جس میں شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔
اس اعلان نما دعوت نامے کے بعد گاوں کے سارے گھروں کے مرد حضرات علی الصبح جس گھر سے لیتری کی دعوت آئی ہوتی ہے وہاں اپنی درانتیوں کے ہمراہ پہنچ جاتے ہیں جہاں ان کی تواضع ناشتے سے کی جاتی ہے۔
میزبان ان افراد کے بیٹھنے کے لیے ایسی کھلی جگہ کا انتظام کرتا ہے جہاں یہ لیتری میں شریک افراد ایک دوسرے سے بات چیت کر سکیں اور اپنے اوزاروں یعنی درانتیوں کو تیز کریں، اسی کام کے دوران ڈھول والوں کی خصوصی آمد ہوتی ہے جن کے سات عام طور پر پہاڑی ماہیے گانے والے موجود ہوتے ہیں۔
ناشے اور درانتیوں کو تیز کرنے کے بعد یہ ڈھول کی تھاپ اور شہنائیوں کی دھن پر پہاڑی گیت گانے والے، حمد، نعتیہ عارفانہ کلام سے اس لیتری کا باقاعدہ آغاز کرتے ہیں، جس کے ساتھ ہی گھاس کاٹنے کے لیے آئے ہوئے افراد میزبان گھر سے اس جگہ پر جانے کے لیے نکل پڑتے ہیں جہاں گاس کاٹی جانی ہوتی ہے۔
کشمیر کے علاقے ڈھیرہ شریف کے سردار محمد یوسف بھی ایک ایسے ہی زمیندار ہیں جو گھاس کٹائی کے لیے ہر سال اپنے گھر لیتری کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہم نے مال مویشی رکھے ہوئے ہیں اور زمیندار کا گزر اوقات مال مویشی کے بنا نہیں ہوتا، جب مال مویشی رکھے جاتے ہیں تو ان کا انتظام کرنا پڑتا ہے اور ان کی چھ مہینے کی خوراک کے لیے گھاس کاٹنا پڑتی ہے۔ جب اسو کا مہینہ آتا ہے تو تب انتظام ہوتا ہے، اگر یہ لیتری نہ کی جائے تو ہمارے لیے مشکل ہے اور ہمارا دیہاتوں میں یہی کام ہے جس کے بغیر چارہ نہیں۔‘
گھاس کٹائی کے بعد اسے ایک مخصوص طریقے محفوظ کیا جاتا ہے جس میں اس ایک طریقے سے اوپر نیچے رکھ اونچا کیا جاتا ہے، اس عمل کو ’گھاڑا رچنا‘ کہتے ہیں۔
اس عمل کو کوئی ماہر شخص ہی سر انجام دیتا ہے اوپر نیچے گھاس کے گٹھوں سے بنا یہ گھاڑا اس انداز سے تیار کیا جاتا ہے کہ بارش کا ہونے والا پانی اس میں داخل نہیں ہوتا اور گھاس محفوظ رہتی ہے۔
راجہ شاہد لطیف کا تعلق پاکستان زیر انتظام کشمیر کے علاقہ کھاوڑا سے ہے۔
شاہد کا شمار خود ایک بڑے زمیندار گھرانے سے ہوتا ہے۔ شاہد لطیف لیتری کے متعلق کہتے ہیں کہ ’لیتری بنیادی طور پر بھائی چارہ ہے، گاوں کے لوگ ایک دوسرے کے کام آتے ہیں، اگر کسی ایک کوئی مسئلہ درپیش ہے تو سب اس کے ساتھ اکٹھے ہوکر کھڑے ہوجاتے ہیں، کوئی فوتگی ہو یا مکان بنانا، جب ہم لوگ مکان کی چھت ڈالتے ہوئے کسی مدد کرتے ہیں تو اسے ’پچھیئی‘ کہا جاتا ہے اور گھاس کٹائی کے لیے اکٹھے ہونا لیتری کہلاتا ہے۔
’میں زمیندار ہوں میری گھاس ہے جو 400-500 گٹھ ہے، میں گاوں میں لوگوں کو اپنے گھر سے کسی کو بھیج کر دعوت دیتا تھا کہ میرے گھر لیتری ہے اور آپ نے آنا ہے، اس دعوت پر لیتری میں لوگ خود آتے تھے ساتھ میں کسی کے گھر دہی ہے تو لے آیا، کوئی مکئی کا آٹا لے آتا ہے، یہ ایک ایسی رسم ہے کہ آج اگر میری لیتری پر کوئی میری مدد کرتا ہے کل میں اس کی مدد کروں گا۔‘
محمد اشفاق جو زمیندار ہیں ان کا کہنا ہے کہ ’آج ہماری لیتری ہے کل دوسرے بندے کی ہوگی، اسی طرح گاؤں سب مل کر ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں اور مل کر کام کرتے ہیں۔‘
جبکہ چوہدری عبیداللہ کا کہنا ہے کہ ’ہمارے کشمیر میں بہت اتحاد ہے، ہم ایک دوسرے کا کام مل جل کر کرتے ہیں اور اسی طرح مل کر ہم سب لوگوں کا کام مکمل کرتے ہیں، ہمارے پہاڑی علاقوں میں سڑکوں کا فقدان ہے اسے بھی ہم اسی طرح حل کریں گے۔‘