میرے طلبا میں ایک بار ایک ایسی لڑکی تھی، جس کی ناک پہ زخم کا نشان تھا۔ لیکچر کے دوران سامنے بیٹھے طلبا کے چہرے اکثر توجہ بٹاتے ہیں مگر یہ چہرہ بات بھلا دیا کرتا تھا۔
سمسٹر ختم ہوا، دوبارہ کون کسی سے ملتا ہے لیکن میری اس لڑکی سے دوبارہ ملاقات ہوئی اور معلوم ہوا کہ ناک پہ زخم کا نشان پسند کی شادی کی پاداش میں ملا تھا۔ جس لڑکے سے محبت ہوئی وہ ہلکی ذات کا تھا۔
نتیجہ وہی ہوا جو ایسے موقعوں پہ ہوتا ہے۔ لڑکا لڑکی نے گھر سے بھاگ کے شادی کر لی، لڑکی کے گھر والوں نے پکڑ لیا، لڑکے کو جان سے مار دیا لڑکی کے بھائی نے لڑکی کی ناک کاٹنے کی کوشش کی ماں نے بڑھ کے بچا لیا۔
کچھ عرصے بعد ماں باپ مر گئے، بھائی نے شادی کر لی پسند کی شادی، بھابھی نے کٹی ہوئی ناک والی نند کا جینا دوبھر کر دیا۔ دوبارہ پڑھائی شروع کی اور اب ملازمت کر رہی ہے شاید زندگی بھر کسی سے محبت کا سوچے گی بھی نہیں۔
یہ کہانی سن کے مجھ سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا، کئی سال گزر گئے، آج تک مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کیا کہوں؟
جتنا سوچتی ہوں اتنا الجھتی ہوں۔ کسی کو پسند کرنا جرم ہے؟ میرے خیال میں نہیں۔ پسند کی شادی کرنا جرم ہے، یقینا نہیں۔ ذات پات کی بنا پہ کسی کو اعلی کسی کو ادنی سمجھنا درست ہے؟ بالکل بھی نہیں۔
یہ ساری مساوات ہمارے سامنے کی ہے مگر سوال کا جواب وہی نکلتا ہے جو اس معاملے میں نکلا۔ ناک کاٹنے والے بھائی نے بھی وہی جرم کیا مگر وہ اپنی ناک سلامت لیے پھر رہا ہے۔
مسئلہ اسی ناک سے ہے، یہ ہی ناک اپنی حدود سے تجاوز کر کے دوسروں کے معاملات میں گھستی ہے، یہ ہی ناک ’خبر ناک‘ کہلاتی ہے جو جگہ جگہ کی خبریں سونگھ کر آگے پہنچاتی ہے اور لوگوں کی ناک کٹوانے کا سبب بنتی ہے۔
یہ ہی ناک ہے جس سے پہلے لوگوں کی آزادی ختم ہو کے کسی کی اپنی ذات شروع ہو جاتی ہے اور اسی ناک کو کاٹنے کی غیر اعلانیہ اجازت جانے کیوں کچھ لوگوں کو مل جاتی ہے۔
عاصمہ جہانگیر صاحبہ نے کئی برس پہلے یہ جنگ لڑی اور لڑکیوں کو پسند کی شادی کا حق قانونی طور پہ حاصل ہو گیا۔ یاد رہے کہ یہ حق قانونی طور پہ تو مل گیا تھا لیکن آج بھی ہم اپنی اولاد کو یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں۔
وہ بچیاں جنہیں ساری زندگی یہ سمجھایا جاتا ہے کہ کسی اجنبی سے بات نہیں کرنی، ایک دن ہم انہیں ایک اجنبی کے ساتھ پوری عمر گزارنے کے لیے یہ کہہ کے روانہ کر دیتے ہیں کہ ہم کرم کے ساتھی نہیں۔
تربیت صرف لڑکیوں کی کی جاتی ہے اور یہ ہی کہہ کے کی جاتی ہے کہ اگلے گھر جا کے کیا کرو گی؟
لڑکے صرف اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ شادی کے بعد کوئی ان کا بکھرا ہوا کمرہ سنبھال کے ان کی ماں کی طنزیہ گفتگو سنے گی اور ان کی بری عادتوں کو نبھانے کے نام پہ آجائے گی۔ اس کی پسند یا ناپسند کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ سماجی دوغلا پن اور دوسروں کی زندگی پہ اپنے اجارہ سمجھنے کا بخار اتنا عام ہے کہ محبتوں سے پالی بیٹیوں کو بھی اس عذاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
میرے مشاہدے کے مطابق غیرت کا یہ بخار زیادہ تر چچاؤں، تایوں، بھائیوں، بہنوئیوں اور ان لوگوں کو چڑھتا ہے جو نہ تو جنم کے ساتھی ہوتے ہیں نہ کرم کے۔ خود کچھ نہیں کر پاتے تو طعنے دے دے کر ماں باپ کو زندہ درگور کر دیتے ہیں۔
قانونی، مذہبی، انسانی حق ہونے کے باوجود پسند کی شادی کا یہ حق جانے کب ملے گا۔ یہ حق ہمارے سماج نے جانے کیوں اپنے ہاتھ میں لے لیا اور ان سے یہ حق سماج کے ٹھیکے دار لے کے بھاگے اور اپنے پروردہ غنڈوں کو اس کی پاسداری پہ لگا دیا۔
محبت کرنے والوں کا ساتھ دیجیے، نفرت کرنے والے اور نفرت پھیلانے والے پہلے ہی بہت ہیں، محبت کرنے والوں کو تلاش کیجیئے اس سے پہلے کہ سب طرف صرف نفرت کرنے والوں کا راج ہو جائے۔
نوٹ: تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔