لاہور پولیس کا کہنا ہے کہ شہر کے نجی کالج میں ایک طالبہ کے ریپ کے ملزم سکیورٹی گارڈ کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
ڈی آئی جی آپریشنز لاہور پولیس فیصل کامران نے پیر کو ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’نجی کالج میں طالبہ سے مبینہ زیادتی کی سوشل میڈیا خبر وائرل ہوئی جس پر لاہور پولیس نے فوری ایکشن لیا اور ملزم سکیورٹی گارڈ کوفوری حراست میں لے لیا گیا ہے۔‘
انہوں نے انکشاف کیا کہ جس لڑکی کے مبینہ ریپ کی خبریں سامنے آرہی ہیں اس بچی یا اس کے والدین کے حوالے سے اب تک کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
’لاہور پولیس نے بچی اور اس کے والدین کو ڈھونڈنے کا عمل مسلسل جاری رکھا ہوا ہے، خبر اور واقعے کی تاحال تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔‘
دوسری جانب پیر کو نجی کالج کے طلبہ نے صبح سویرے ہی کالج کے باہر احتجاج شروع کر دیا جو طول پکڑ گیا۔
طلبہ نے کالج کے باہر ٹائروں کو بھی آگ لگائی جس کے بعد وہاں ریسکیو 1122 کے اہلکار بھی پہنچ گئے۔
ریسکیو 1122 کے ترجمان محمد فاروق نے انڈیپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ریسکیو 1122 کو طلبہ اور سکیورٹی عملے کے درمیاں تصادم کی کال موصول ہوئی تھی جس کے بعد ریسکیو ایمرجنسی گاڑیاں جائے حادثہ پر پہنچیں اور وہاں موجود زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد فراہم کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ ’ایک طالب علم لڑائی سے شدید زخمی ہوا جسے قریب ہی سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا جبکہ اس کے علاوہ ہم نے 27 زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد فراہم کی۔‘
ڈی آئی جی آپریشنز ونگ لاہور فیصل کامران نے اپنی پریس کانفرنس میں بتایا کہ لاہور پولیس کالج انتظامیہ اور طلبہ سے مسلسل رابطے میں ہے۔
’مشتعل طلبہ نے کالج پرنسپل کی حوالگی کا مطالبہ کیا تھا۔ ایس پی ماڈل ٹاون اور اے ایس پی ماڈل ٹاون نے پرنسپل کو بحفاظت کالج سے باہر نکالا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ طلبہ کے پتھراؤ سے ایس پی ماڈل ٹاون، اے ایس پی ماڈل ٹاون اور پولیس اہلکاروں کو چوٹیں آئی ہیں۔
فیصل کامران کا کہنا تھا کہ طلبہ کی کالج کے سکیورٹی عملے سے تصادم میں چند طلبہ کو ہلکی چوٹیں آئی ہیں۔ ’زخمی طلبہ کو فوری طبی امداد دی گئی ہے۔ کالج انتظامیہ اور طلبہ کی مدد سے واقعے کے حقائق جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کالج کے تمام کیمروں کا ریکار ڈ بھی چیک کیا گیا ہے، تا حال واقعے کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔ مبینہ طور پر متاثرہ بچی اور خاندان کو ڈھونڈنے کی کوشش جاری ہے تمام ہسپتالوں کاریکارڈ اور کالج کی سی سی ٹی وی ریکارڈنگز کا معائنہ کیا جا چکا ہے۔ اب تک کسی متاثرہ بچی کی نشاندہی نہیں ہوئی۔‘
فیصل کامران ان کا کہنا تھا کہ احتجاج کرنے والے طلبہ سے مسلسل بات کر رہے ہیں، کوئی مبینہ طور پر متاثرہ بچی کی نشاندہی نہیں کر پایا۔
وزیر تعلیم رانا سکندر حیات بھی نجی کالج کے طلبہ کے احتجاج کی خبر سن کر اچانک کالج پہنچے اور احتجاج کرنے والے طلبہ کو انصاف کی یقین دہانی کرائی۔
رانا سکندر حیات کا کہنا تھا کہ اگر کسی اساتذہ نے ثبوت مٹائے ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کریں گے، ’طلبہ پُر امن احتجاج کریں، میں ساتھ دوں گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کالج سیل، رجسٹریشن منسوخ کرنے کی نوبت آئی تو اس سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ طالبات کو محفوظ تعلیمی ماحول دینا ہماری ذمہ داری ہے۔‘
نجی کالج کے ایک طالب علم کے والد نے انڈیپینڈنٹ اردو سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’کالج کے بچے ڈرے ہوئے ہیں اسی لیے وہ کسی سے بات نہیں کر رہے۔ پولیس بھی ان سے پوچھ گچھ کر رہی ہے میرا بیٹا بھی وہیں پڑھتا ہے اور اس کا بھی یہی کہنا ہے کہ اگر ہم کوئی بات کریں گے تو کالج انتظامیہ ہمارے ہی خلاف ایکشن لے گی جو ہم نہیں چاہتے۔‘