پاکستان میں ’نِل فائلرز‘ کی تعداد میں اضافہ کیوں؟

اعداد و شمار کے مطابق یکم جولائی 2023 سے 14 اکتوبر 2024 تک ایف بی آر کو ٹیکس سسٹم میں 10 لاکھ 59 ہزار نئے فائلرز رپورٹ ہوئے۔

چار جولائی 2024 کو اسلام آباد میں ایک شخص فیڈرل بورڈ آف ریوینیو کے دفتر سے باہر نکلتے ہوئے۔ اس سال ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کی آخری تاریخ میں 31 اکتوبر تک توسیع کر دی گئی (اے ایف پی/ فاروق نعیم)

فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) نے انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی آخری تاریخ 31 اکتوبر تک توسیع تو کر دی ہے تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ اس بار ’نل فائلرز‘ کی تعداد میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔

پاکستان میں نِل فائلر ایک ایسے فرد یا ادارے کو کہا جاتا ہے جو یا تو اپنی آمدنی کا ٹیکس ریٹرن فائل کرتا ہے لیکن اس سال کی کوئی ایسی آمدنی ظاہر نہیں کرتا جو قابلِ ٹیکس ہو۔ ایسے فرد یا ادارے ٹیکس کی مد میں ایف بی ار کو کوئی رقم ادا نہیں کرتے۔

دوسری جانب انکم ٹیکس آرڈیننس کے مطابق، ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی اصل آخری تاریخ 30 ستمبر تھی۔

تاہم ایف بی آر کی جانب سے 14 اکتوبر کو جاری نوٹیفیکشن کے مطابق کاروباری حلقوں اور ٹیکس بار ایسوسی ایشن نے درخواست کی کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے باعث اسلام آباد اور راولپنڈی میں بینکوں کی تعطیلات کے باعث ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی تاریخ میں توسیع کی جائے۔

جس کے بعد تاریخ میں اس ماہ کے آخر تک توسیع کر دی گئی۔

ایف بی آر کی جانب سے جاری اعداوشمار کے مطابق حالیہ برس ایف بی آر کو 14 اکتوبر تک ساڑھے 45 لاکھ ٹیکس ریٹرن موصول ہوئے۔ گذشتہ سال اسی مدت 21 لاکھ 83 ہزار رٹرن موصول ہوئے تھے۔ اس سال موصول ہونے والی گوشواروں میں تقریباً 108 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔

مالی سال 2023 کے لیے ایف بی آر کو 64 لاکھ 64 ہزار ریٹرن موصول ہوئے تھے۔ گذشتہ سال موصول ہونے والی سطح تک پہنچنے کے لیے ایف بی آر کو 19 لاکھ 27 ہزار ریٹرنز کی توقع ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق یکم جولائی 2023 سے 14 اکتوبر 2024 تک ایف بی آر کو ٹیکس سسٹم میں 10 لاکھ 59 ہزار نئے فائلرز رپورٹ ہوئے۔

گذشتہ سال کے مقابلے میں اس سال موصول ہونے والے ریٹرنز کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، لیکن اس سال ’نِل فائلرز‘ کے تناسب میں بھی تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق یکم جولائی 2024 سے 14 اکتوبر 2024 تک 16 لاکھ 79 ہزار نِل فائلر ریٹرن موصول ہوئے یہ کل ریٹرن کا 37 فیصد ہیں۔

جب کہ گذشتہ سال 2023 میں اس مدت کے دوران کُل 21 لاکھ 83 ہزار ریٹرن فائل ہوئے تھے جن میں سے سات لاکھ 83 ہزار 816 نِل ریٹرن تھے، جو کُل ریٹرن کا تقریباً 36 فیصد بنتا ہے۔

کراچی ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور ٹیکس امور کے ماہر ذیشان مرچنٹ نے انڈپینڈنٹ اردو کو نل فائلرز نے بارے میں بتایا کہ اگر کسی شخص کی آمدنی کم یا نہ ہونے کے برابر ہو اور وہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی مقرر کردہ قابلِ ٹیکس حد سے کم ہو، تو وہ پھر بھی ٹیکس ریٹرن فائل کر سکتا ہے۔

’مگر اس صورت میں وہ اپنی آمدنی اور اخراجات کو صفر یا قابلِ ٹیکس حد سے نیچے ظاہر کرے گا۔‘

ذیشان مرچنٹ نے کہا کہ ’ایسی صورت میں، کوئی ٹیکس ادائیگی کی ضرورت نہیں ہوتی، مگر ریٹرن فائل کرنا ضروری ہے تاکہ ان کا نام ایکٹو ٹیکس پیئرز لسٹ یا اے ٹی ایل میں آجائے اور وہ فرد یا ادارہ نان فائلر کے لیے مقرر جرمانے سے بچ سکے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ذیشان مرچنٹ نے مزید کہا: ’کوئی فرد اگر بیرون ملک کام کرتا ہے اور وہاں سے رقم پاکستان بھیجتا ہے جسے رمیٹینس کہا جاتا ہے اس پر ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔ مگر ایکٹو ٹیکس پیئرز لسٹ میں شامل ہونے کے لیے وہ نل فائلر کی صورت میں ریٹرن جمع کراتا ہے۔

’اگر کوئی فرد ریٹائرد ہے اور ان کی جمع پونجی شیئر کی صورت میں یا بینک میں جمع ہے۔ اگر وہ فرد نان فائلر ہے تو بینک ان رقوم کی منتقلی پر زیادہ کٹوتی کرے گا۔ ایسی صورت میں یہ فرد نِل فائلر کی حیثیت میں ریٹرن فائل کرے گا کہ میری کوئی آمدنی نہیں ہے اور وہ خود کو ایکٹو ٹیکس پیئرز لسٹ یا اے ٹی ایل میں شامل کرائے گا تاکہ وہ فرد نان فائلر کے لیے مقرر جرمانے سے بچ سکے۔‘

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ایف بی آر کے قانون کے تحت چھ لاکھ روپے تک سالانہ آمدنی رکھنے والے افراد کو ٹیکس پر چھوٹ ہے اور چھ لاکھ روپے سے کم آمدنی والے لوگ بھی نِل فائلر کی حیثیت سے ریٹرن فائل کرتے ہیں۔

’نان فائلرز کے لیے رکھے گئے جرمانے جن میں سم کارڈ بلاک ہونا، بجلی، گیس اور دیگر یوٹیلٹیز کا بند کرنا، بینک اکاؤنٹ کھولنے کی اجازت نہ ملنا اور بیرون ممالک سفر پر پابندیوں اور نان فائلر کی حیثیت میں گاڑی یا جائیداد پر دگنے ٹیکس کی وصولی کے باعث قابل ٹیکس آمدنی نہ ہونے کے باجود لوگ نِل فائلر کی حیثیت سے ریٹرن جمع کرا رہے ہیں۔ اس لیے اب نِل فائلر ریٹرنز میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت