پاکستان کے صوبہ پنجاب میں طلبہ کے احتجاج کے پیش نظر صوبائی حکومت کے احکامات پر آج صوبے بھر میں تعلیمی ادارے بند ہیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے بھی آج ممکنہ آئینی ترمیم اور عمران خان کی قید کے خلاف ملک گیر احتجاج کی کال دے رکھی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پنجاب حکومت نے آج صوبے بھر میں تعلیمی اداروں کو بند رکھنے کے علاوہ دفعہ 144 بھی نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
تعلیمی اداروں پر عائد اس بندش کا اطلاق پلے گروپ سے لے کر یونیورسٹیوں تک ہر تعلیمی ادارے پر ہو گا اور اس سے دو کروڑ 60 لاکھ سے زائد طالب علموں کی نصابی سرگرمیاں متاثر ہوں گی۔
پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں احتجاج کا آغاز اس وقت ہوا جب ایک نجی کالج کے ویمن کیمپس کے تہہ خانے میں ایک طالبہ کو ریپ کا نشانہ بنانے کے الزامات سامنے آئے تھے۔
تاہم کالج انتظامیہ، پولیس اور صوبائی حکومت نے کہا ہے کہ کوئی بھی متاثرہ فریق سامنے نہیں آیا ہے اور انہوں نے ان رپورٹس کو آن لائن پھیلائی گئی غلط معلومات قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔
اس تردید کے باوجود طلبہ احتجاج لاہور کے بعد راولپنڈی تک پھیل گیا جس میں طلبہ نے حکام پر واقعے کو چھپانے کا الزام لگایا ہے۔
اس احتجاج کے ردعمل میں پنجاب کے محکمہ تعلیم اور محکمہ داخلہ نے جمعرات کی رات الگ الگ نوٹیفکیشن جاری کیے، جن میں تعلیمی ادارے بند رکھنے اور جمعے اور ہفتے کو عوامی اجتماعات پر پابندی کا حکم دیا گیا۔
اگرچہ نوٹیفکیشنز میں مبینہ ریپ کے خلاف احتجاج کا واضح طور پر ذکر نہیں کیا گیا ہے لیکن طلبہ کا کہنا ہے کہ یہ بندش مظاہروں کی وجہ سے ہوئی ہے۔
گذشتہ روز پنجاب کے کئی شہروں میں پرتشدد مظاہرے ہوئے تھے جن میں طلبہ اور پولیس کے درمیان جھڑپیں، تعلیمی اداروں کی کھڑکیاں توڑنے اور سکول بسوں کو نذر آتش کرنے کے واقعات پیش آئے تھے۔
جبکہ انتظامیہ کے مطابق اس احتجاج میں شریک 380 سے زیادہ افراد کی گرفتاریاں بھی کی گئیں ہیں اور پولیس تشدد میں ملوث مظاہرین کی شناخت کے لیے سی سی ٹی وی فوٹیج استعمال کر رہی ہے۔ ان مظاہروں کی قیادت زیادہ تر طلبہ کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صوبائی حکومت نے اصرار کیا ہے کہ مبینہ ریپ کا واقعہ کبھی پیش نہیں آیا جبکہ نجی کالجز کے گروپ ڈائریکٹر عارف چوہدری نے بھی ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔
ان خبروں کی تردید پر قائم رہتے ہوئے انہوں نے اعلان کیا کہ اگر الزامات درست ثابت ہوئے تو وہ استعفیٰ دے دیں گے۔
اے ایف پی کے مطابق پولیس نے ایک سکیورٹی گارڈ کو بھی گرفتار کیا ہے جس کی آن لائن پوسٹس میں نشاندہی کی گئی تھی۔
ادھر صوبے کی وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کا کہنا ہے جھوٹی خبریں پھیلانے والوں کو سزا دی جائے گی۔
جبکہ پنجاب پولیس نے والدین سے بھی کہا کہ وہ اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں اور انہیں کسی بھی غیر قانونی سرگرمی سے دور رکھیں ورنہ ’مجرمانہ ریکارڈ طلبہ کے مستقبل کی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔‘
راولپنڈی میں کل کے احتجاج کے بعد پولیس کی نفری شہر بھر میں مختلف مقامات پر تعینات کر دی گئی ہے۔
پولیس کے بیان کے مطابق: ’پولیس امن و امان کی کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے اور احتجاج کی آڑ میں توڑ پھوڑ یا قانون کی خلاف ورزی کسی صورت قابل قبول نہیں۔‘
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف نے بھی آج ملک گیر احتجاج کی کال دے رکھی جس کا مقصد ممکنہ آئینی ترمیم اور پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان کی قید کے خلاف احتجاج بتایا گیا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے اپنے ویڈیو پیغام میں 18 اکتوبر کو پاکستان کے ہر ضلعے اور ہر شہر کے اندر لوگوں سے پرامن احتجاج کرنے کے لیے گھر سے نکلنے کی اپیل کی ہے۔
انہوں نے اپنے پیغام میں کہا: ’عمران خان اور ہماری دوسری قیادت اور کارکنوں کی رہائی اور ان کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا گیا ہے کہ ان سے ملاقات تک نہیں کروائی جا رہی اور ساتھ ہی غیر آئینی ترمیم کے خلاف کل سب نے نکلنا ہے اور آواز اٹھانی ہے۔‘