پنجاب: سرکاری سکولوں، کالجز میں اساتذہ کی ایڈہاک بھرتی شروع

محکمہ ہائر ایجوکیشن کی جانب سے نوٹیفکیشن کے مطابق نئے بھرتی ہونے والوں کو کالج انٹرنز کا نام دیا گیا ہے۔ انہیں ہر ماہ 50 ہزار روپے وظیفہ دیا جائے گا اس کے علاوہ کوئی الاؤنس نہیں ملے گا۔

24 مئی، 2024 کی اس تصویر میں پاکستان کے شہر لاہور میں ایک سکول کی جماعت کا منظر جہاں بچے پڑھ رہے ہیں(اے ایف پی)

حکومت پنجاب نے سرکاری سکولوں اور کالجز میں 13 ہزار سے زائد اساتذہ کو چھ ماہ کے لیے ایڈہاک بھرتی کرنے کے فیصلے پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔

محکمہ ہائر ایجوکیشن پنجاب کی جانب سے یکم اکتوبر کو جاری نوٹیفکیشن کے مطابق اس سال نومبر سے اپریل تک کے لیے سات ہزار تین سو سے زائد اساتذہ کو کالجز میں بھرتی کیا جائے گا۔

اس سے قبل ڈائریکٹوریٹ آف پبلک انسٹرکشنز پنجاب نے بھی چھ ہزار عارضی اساتذہ سرکاری سکولوں میں بھرتی کرنے کا اعلان کیا تھا۔

محکمہ تعلیم کے حکام نے بتایا کہ سرکاری سکول و کالجز میں ہزاروں اساتذہ کی اسامیاں خالی ہیں۔ لیکن گذشتہ کئی سالوں سے معاشی صورت حال کے پیش نظر مستقل بھرتیاں نہیں کی جا رہیں۔ جس سے سکول و کالجز میں اساتذہ کی شدید قلت سے نظام تعلیم متاثر ہو رہا ہے۔

ٹیچر یونین پنجاب کے جنرل سیکریٹری رانا لیاقت علی کے بقول، حکومت پنجاب گذشتہ پانچ سال سے سرکاری سکول و کالجز میں مستقل اساتذہ کی بجائے چھ ماہ کے لیے عارضی بھرتیاں کر کے تعلیمی ادارے ایڈہاک پر چلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ جس سے سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم کا معیار مسلسل گرتا جارہا ہے۔

اساتذہ کی بھرتی کا طریقہ کیا ہوگا؟

محکمہ تعلیم کی جانب سے طے شدہ طریقے کے مطابق پہلے مرحلے میں پنجاب کے مختلف کالجز میں 73 سو سے زائد اساتذہ کو یکم نومبر سے 30 اپریل تک کے لیے بھرتی کیا جائے گا۔ جبکہ سکولوں کے لیے چھ ہزار اساتذہ بھرتی ہوں گے۔

سکولوں اور کالجز میں بھرتی کے لیے تعلیم کی شرط کم از کم ماسٹرز رکھی گئی ہے۔ فریش امیدوارں کو ترجیح دی جائے گی، امیدوار کسی بھی کالج میں درخواست جمع کرا سکیں گے۔ مختلف مضامین کے لیے ہر کالج و سکول میں ڈیمانڈ کے مطابق بھرتی کی جائے گی۔

محکمہ ہائر ایجوکیشن کی جانب سے نوٹیفکیشن کے مطابق نئے بھرتی ہونے والوں کو کالج انٹرنز کا نام دیا گیا ہے۔ انہیں ہر ماہ 50 ہزار روپے وظیفہ دیا جائے گا اس کے علاوہ کوئی الاؤنس نہیں ملے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سکول انٹرنز کو 25 ہزار روپے وظیفہ دیا جائے گا۔ بھرتی کے لیے مرد اور خواتین امیدوار اپلائی کر سکیں گے۔

موصول ہونے والی درخواستوں پر آخری ڈگری میں حاصل کردہ نمبروں کی بنیاد پر ترجیحی لسٹ بنائی جائے گی۔ اس کے بعد ضروری معلومات حاصل کر کے متعلقہ حکام انٹرویو لے کر امیدوار فائنل کریں گے۔

ان بھرتیوں کے کے لیے پانچ فیصد اقلیتی جبکہ تین فیصد معزور امیدواروں کے لیے کوٹہ مختص ہوگا۔

انٹرنز کی بھرتی سے مسئلہ کیسے حل ہوگا؟

اس بارے میں محکمہ تعلیم کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’پنجاب کے سرکاری سکولوں اور کالجز میں 50 ہزار سے زائد اساتذہ کی کمی ہے۔ کیونکہ گذشتہ کئی سالوں میں مستقل اساتذہ بھرتی نہیں ہوئے۔ جبکہ بڑی تعداد میں ہر سال ٹیچرز ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔

’تعلیمی اداروں میں معیار تعلیم بہتر نہ ہونے کے باعث طلبہ کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوسکا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’گذشتہ ایک سال سے سکولوں اور کالجز میں انٹرنز بھی نہیں رکھے گئے۔ اب یہ سلسلہ دوبارہ شروع کیا جارہا ہے تاکہ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی کمی کو کسی حد تک پورا کیا جاسکے۔ لیکن یہ کوئی مستقل حل نہیں ہے اور آنے والے دنوں میں یہ مسئلہ برقرار رہے گا۔‘

ٹیچرز یونین پنجاب کے جنرل سیکریٹری رانا لیاقت علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’محکمہ تعلیم پنجاب نے پانچ سال پہلے سکولوں اور کالجز میں عارضی اساتذہ یعنی انٹرنز بھرتی کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ نگران حکومت میں انٹرنز رکھنے کا سلسلہ بھی بند کر دیا۔

’سرکاری تعلیمی اداروں میں اساتذہ کے ریٹائرڈ ہونے یا نوکری چھوڑنے کے باعث ہر سکول میں 30 سے 40 فیصد آسامیاں خالی پڑی ہیں۔ جس سے معیار تعلیم مسلسل متاثر ہو رہا ہے۔ اب حکومت نے مستقل اساتذہ کی بجائے سکول پرائیویٹائز کرنے اور انٹرنز کے ذریعے چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

رانا لیاقت کے بقول، ’صوبے بھر کے سرکاری تعلیمی اداروں میں ایک لاکھ کے قریب آسامیاں خالی ہیں جنہیں 13 ہزار انٹرنز وہ بھی عارضی بھرتی کر کے کیسے پر کیا جا سکتا ہے؟ ان عارضی بھرتیوں سے آنے والے امیدوار کوئی ذمہ داری نہیں لیتے نہ ہی انہیں نتائج بہتر کرنے میں کوئی دلچسپی ہوتی ہے۔ کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ چھ ماہ کے لیے ہیں۔ پھر وہ دو دو نوکریاں کر رہے ہوتے ہیں اس طرف توجہ نہیں دیتے۔ کئی انٹرنز آدھی تنخواہ متعلقہ سکول کی اتظامیہ کو دے کر ڈیوٹی پر بھی نہیں آتے۔ ان کے خلاف کارروائی بھی کوئی نہیں کر سکتا کیونکہ انہیں مستقل اساتذہ کی طرح نوکری کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔‘

رانا لیاقت کا کہنا ہے کہ ’حکومت پنجاب کو چاہیے کہ معیار تعلیم بہتر کرنے کے لیے ایڈہاک نہیں مستقل پالیسی بنائے تاکہ سرکاری تعلیمی اداروں میں نظام تعلیم بہتر ہوسکے اور لوگ پرائیویٹ کی بجائے ان اداروں میں بچوں کو سستی تعلیم دلوا سکیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس