پی ٹی آئی کی پنجاب میں ایک بار پھر احتجاج کی کال کتنی موثر ہوگی؟

حکومت پنجاب ہر صورت پاکستان تحریک انصاف کا احتجاج روکنے کے لیے پرعزم ہے جبکہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے مطابق ’حکومتی رکاوٹوں کے پیش نظر پلان بی اور سی بھی بنایا جا رہا ہے۔‘

 پاکستان تحریک انصاف کے کارکن 21 ستمبر 2024 کو لاہور کے مضافات میں ایک ریلی میں شریک ہیں (عارف علی / اے ایف پی)

اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے حکومت کی جانب سے مجوزہ آئینی ترمیم کے خلاف پنجاب کے بڑے شہروں میں 11 سے 14 اکتوبر تک احتجاج کی کال دے رکھی ہے۔

اس حوالے سے تحریک انصاف کے رہنماؤں کا دعوی ہے کہ ’پی ٹی آئی نے احتجاج کو کامیاب بنانے کے لیے حکمت عملی تیار کر لی ہے۔ حکومتی رکاوٹوں کے پیش نظر پلان بی اور سی بھی بنایا جا رہا ہے۔‘

دوسری حکومت حکومت پنجاب ہر صورت پاکستان تحریک انصاف کا احتجاج روکنے کے لیے پرعزم ہے۔

پی ٹی آئی نے ان ہی تاریخوں میں احتجاج کی کال دی ہے، جب اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا اجلاس ہونا ہے، جس کے لیے وفاقی دارالحکومت میں تین روزہ تعطیلات کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔

پی ٹی آئی نے چار اکتوبر کو بھی اسلام آباد کے ڈی چوک میں احتجاج کی کال دی تھی اور خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور اس سلسلے میں پشاور سے ایک قافلے کی صورت میں اسلام آباد آئے تھے، جہاں ان کے ساتھ موجود لوگوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں، جس کے بعد وہ خیبرپختونخوا ہاؤس چلے گئے، جہاں سے ان کی گرفتاری کی اطلاعات سامنے آئیں تاہم حکومت نے اس کی تصدیق نہیں کی تھی۔ اس دوران دو تین دن تک وفاقی دارالحکومت کے مختلف راستے کنٹینروں کی مدد سے بند رکھے گئے اور موبائل اور انٹرنیٹ سروسز بھی بند رہی تھیں۔

دوسری جانب پانچ اکتوبر کو ‎لاہور کے مینار پاکستان گراؤنڈ میں احتجاج پر دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر پی ٹی آئی رہنماؤں کے مطابق سینکڑوں افراد گرفتار کیے گئے جن میں سے 129 اب بھی گرفتار ہیں۔ پولیس کی جانب سے پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف 25 مختلف تھانوں میں توڑ پھوڑ اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت 25 ایف آئی آرز بھی درج کی گئی تھیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب پھر مختلف شہروں میں احتجاج کی کال کتنی موثر ہوگی اور پنجاب سے تحریک انصاف کے احتجاج کی قیادت کون کرے گا؟

احتجاج کی حکمت عملی

پی ٹی آئی پنجاب کے جنرل سیکرٹری حماد اظہر نے صوبے میں احتجاج کی کال دی ہے، جس کے مطابق 11 اکتوبر کو ملتان اور ساہیوال، 12 اکتوبر کو گوجرانوالہ اور سرگودھا، 13 اکتوبر کو ڈیرہ غازی خان ڈویژن اور 14 اکتوبر کو لاہور اور فیصل آباد میں مظاہرے ہوں گے اور اس کے بعد تحریک انصاف کی پولیٹیکل کمیٹی اسلام آباد کے لیے کال دے گی۔

حماد اظہر سمیت پی ٹی آئی پنجاب کی قیادت مختلف مقدمات میں ملوث ہونے کی وجہ سے روپوش یا گرفتار ہے، اس لیے پنجاب میں کسی ایک رہنما کی جانب سے قیادت مشکل دکھائی دیتی ہے۔

 

اس حوالے سے پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پی ٹی آئی رہنما ملک احمد خان بچڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہم نے احتجاج کی مکمل حکمت عملی تیار کر رکھی ہے۔ احتجاج کی قیادت کون کرے گا اس حوالے سے ابھی نہیں بتا سکتے۔ اس کے علاوہ اب احتجاج شہروں میں ہی ہوں گے تو وہاں مقامی قیادت ہی قیادت کرے گی۔ حکومت کی فسطائیت کے پیش نظر ہم نے پلان بی اور سی بھی بنایا ہوا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ملک احمد نے مزید کہا کہ ’جہاں تک احتجاج کی کامیابی کا تعلق ہے تو حکومت نے پہلے بھی خود شہر بند کر کے ہمارا احتجاج کامیاب کر دیا تھا اور ابھی تک آئینی ترمیم منظور نہیں کروائی جاسکی، لہذا ہم عدلیہ پر شب خون مارنے سے روکنے اور اپنے لیڈر سمیت تمام سیاسی گرفتار رہنماؤں کی رہائی تک احتجاج جاری رکھیں گے۔‘

سیاسی تجزیہ کار حسن عسکری کہتے ہیں کہ موجودہ صورت حال میں احتجاج پی ٹی آئی کا حق ہے، لیکن اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ حکومتی کارروائیاں اپوزیشن کو خاموش کروا دیں گی۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’اپوزیشن کے پاس صرف احتجاج کا ہی اختیار اور سیاسی جدوجہد کا طریقہ ہوتا ہے، لہذا پی ٹی آئی عدالتی اصلاحات اور اپنے رہنماؤں کے خلاف کارروائیوں پر احتجاج تو کرے گی۔ اب بھی اسی طرح احتجاج کی کال دی گئی جیسے پہلے دی جاتی رہی ہے، لیکن ایسی صورت حال میں قبل از وقت یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اپوزیشن حکومتی کارروائیوں سے خوفزدہ ہوکر خاموشی سے بیٹھ جائے۔‘

حسن عسکری کا مزید کہنا تھا: ’ہمارے ملک میں ہر جماعت سیاسی جدوجہد بھی اپنے انداز میں کرتی ہے۔ کوئی مزاحمتی سیاست کرتی ہے اور کوئی صرف جلسے جلوسوں میں علامتی احتجاج کرکے اپنا موقف پیش کرتی ہے۔ اگر دیکھا جائے کہ حکومت اپوزیشن کی مثبت تجاویز کو بھی تسلیم نہیں کرتی، جس کے بعد ردعمل میں شدت آتی ہے۔‘

‎ان کا مزید کہنا تھا: ’کسی بھی سیاسی جماعت کا احتجاج حکومت کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کرنے اور مظاہرین سے دھکم پیل یا گرفتاریوں سے ہی کامیاب تصور ہوتا ہے۔‘

دوسری جانب تجزیہ کار وجاہت مسعود سمجھتے ہیں کہ اسلام آباد کے ڈی چوک میں احتجاج کی ناکامی کے بعد پی ٹی آئی کا پنجاب میں احتجاج بھی کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں وجاہت مسعود نے کہا: ’بدقسمتی سے پی ٹی آئی کی سیاست شروع سے ہی اداروں میں تعیناتیوں اور اعلیٰ عہدیداروں کی مدت ملازمت میں توسیع یا وقت پر ریٹائرمنٹ کے گرد گھومتی ہے۔ کسی آرمی چیف کی تعیناتی یا توسیع ہو یا کسی چیف جسٹس کی تقرری یا ریٹائرمنٹ، اس پر پی ٹی آئی مذاحمتی سیاست کا سہارا لیتی رہی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’اب بھی پی ٹی آئی عدلیہ میں موجود اپنے حامی ججوں کو بااختیار بنانے کے لیے آئینی ترامیم کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ خیبرپختونخوا میں حکومت ملنے کے باوجود وہاں عوامی مسائل حل کرنے کی بجائے جلسے جلوسوں اور بدامنی پھیلانے پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے، مگر حکومت وقت نے پہلے اسلام آباد میں احتجاج ناکام بنایا اور اب پنجاب میں بھی کامیاب احتجاج دکھائی نہیں دیتا۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ‎’پنجاب میں پی ٹی آئی کو قیادت کے فقدان کا بھی سامنا ہے، اسی لیے شاید مختلف شہروں کی سطح پر احتجاج کا اعلان کیا گیا ہے، لیکن کسی ایک شہر میں احتجاج کنٹرول کرنے سے مختلف شہروں میں موجود مطاہرین کو قابو کرنا آسان ہوتا ہے، اس لیے آئینی ترامیم بھی ہوں گی اور اسلام آباد میں شنگھائی کانفرنس بھی پر امن طریقے سے ہو جائے گی۔‘

 احتجاج کامیاب ہوسکے گا؟

پی ٹی آئی نے احتجاج کی کال تو دے رکھی ہے، لیکن پنجاب حکومت اسے روکنے کے لیے پرعزم ہے۔

صوبائی وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’سیاسی لوگ سیاسی جدوجہد کرتے ہیں لیکن یہ دہشت گرد جماعت ہے۔ پنجاب کے لوگوں نے فتنہ فساد کی سیاست کو مسترد کر دیا ہے، جو بھی قانون توڑے گا اس کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔‘

‎ان کا مزید کہنا تھا: ’پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہونے جا رہا ہے، پاکستان کے انٹرنیشنل کمیونٹی سے تعلقات دوبارہ بحال رہے ہیں لیکن یہ جماعت پاکستان کو دوبارہ عالمی تنہائی کا شکار کرنے کے حربے استعمال کر رہی ہے۔‘

عظمیٰ بخاری نے پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان کے حوالے سے مزید کہا: ’اڈیالہ جیل کا قیدی پاکستان میں جلاؤ گھیراؤ اور مار دھاڑ چاہتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست