وزیراعظم کی امریکی صدر سے عافیہ صدیقی کی رہائی کی درخواست

ایسوسی ایٹڈ پریس کو دستیاب 13 اکتوبر کو لکھے گئے خط کی نقل کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے صدر جو بائیڈن کو مطلع کیا کہ عافیہ صدیقی پہلے ہی 16 سال قید کاٹ چکی ہیں اور اس معاملے کو ’ہمدردی کے ساتھ دیکھنے‘ کی ضرورت ہے۔

15 نومبر 2014 کی اس تصویر میں لاہور میں عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے مظاہرے میں شریک افراد نے ان کی تصاویر پر مشتمل پوسٹرز اٹھا رکھے ہیں (اے ایف پی)

پاکستانی حکومت کے وکیل نے جمعے کو اسلام آباد کی ایک عدالت کو بتایا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے امریکی صدر جو بائیڈن کو خط لکھ کر پاکستانی خاتون عافیہ صدیقی کی رہائی کی درخواست کی ہے، جو دہشت گردی کے الزامات کے تحت امریکہ میں 86 سال کی قید کاٹ رہی ہیں۔

وزیر اعظم کا یہ خط اسلام آباد کی ایک عدالت میں جمع کروایا گیا، جہاں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی کی جانب سے دائر ایک درخواست کی سماعت ہو رہی ہے۔ امریکہ میں تربیت یافتہ نیورو سائنس دان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 2010 میں امریکی شہریوں کو قتل کرنے کی کوشش سمیت دیگر الزامات کے تحت مجرم قرار دیا گیا۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کو دستیاب 13 اکتوبر کو لکھے گئے خط کی نقل کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے صدر جو بائیڈن کو مطلع کیا کہ عافیہ صدیقی پہلے ہی 16 سال قید کاٹ چکی ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ اس معاملے کو ’ہمدردی کے ساتھ دیکھنے‘ کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شہباز شریف نے کہا کہ کئی برس میں متعدد پاکستانی حکام نے ان سے ملاقاتیں کیں اور ان کے ساتھ ہونے والے سلوک پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ ان کے ساتھ ہونے والے سلوک نے ان کی پہلے سے ہی نازک ذہنی اور جسمانی صحت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

شہباز شریف نے پاکستانی حکام کے خدشے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ’درحقیقت انہیں ڈر ہے کہ وہ اپنی زندگی کا خاتمہ کر سکتی ہیں۔‘

وزیر اعظم نے صدر بائیڈن سے عافیہ صدیقی کی بہن کی جانب سے معافی کی درخواست کو قبول کرنے اور انسانی ہمدردی کی بنیا پر ان کی رہائی کا حکم دینے کی درخواست کی۔

وزیراعظم نے کہا: ’ان کا خاندان اور میرے لاکھوں ہم وطن اس درخواست کے لیے آپ کی مہربانی کے طلب گار ہیں۔‘

سابق سینیٹر مشتاق احمد خان نے سماعت کے بعد عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ عافیہ صدیقی کے وکیل کلائیو سمتھ نے 80 ہزار الفاظ پر مشتمل جو پٹیشن جمع کی ہے، اس کی توسیع اور سپورٹ کے لے حکومت نے خط تو لکھ دیا ہے لیکن خط لکھنے سے فائدہ نہیں ہوگا۔

’عافیہ کو اس وقت تک رہائی نہیں ملے گی، جب تک ایک اعلیٰ سطح کا وفد ان کے پاس نہ جائے۔ اس میں میڈیکل ڈاکٹر، آرمی آفیسر اور پارلیمنٹیرینز بھی ہونے چاہییں، بے شک حکومت اپنی پسند کے بھیجے، لیکن ایک وفد ضرور جانا چاہیے، ورنہ اس کے اوپر کچھ نہیں ہوگا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’حکومت نے ایک ہفتے کا وقت لے لیا ہے۔ میں حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ ڈاکٹر عافیہ جو 21 سال سے امریکی جیل میں ہیں، اس کی ذمہ داری تمام سابقہ حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔‘

عافیہ صدیقی پر اس وقت دہشت گردی کا شبہ ظاہر کیا گیا جب وہ امریکہ چھوڑ کر خالد شیخ محمد، جو 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے خود ساختہ ماسٹر مائنڈ ہیں، کے بھتیجے سے شادی کر کے افغانستان چلی گئیں۔

امریکہ نے 2008 میں افغان صوبے غزنی سے انہیں گرفتار کر کے ان کے قبضے سے کیمیائی اجزا کی تراکیب اور کچھ تحریریں برآمد کرنے کا دعویٰ کیا تھا، جن میں نیویارک حملے کا ذکر تھا۔

بعد ازاں 2010 میں انہیں امریکی فوجیوں پر حملہ کرنے کے الزامات کے تحت 86 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔

دوسری جانب عافیہ صدیقی کا خاندان طویل عرصے سے یہ دعویٰ کرتا رہا ہے کہ وہ 2003 میں کراچی سے لاپتہ ہو گئی تھیں اور اس کے بعد سابق صدر پرویز مشرف کی حکومت پر الزام لگایا کہ انہوں نے عافیہ صدیقی کو خفیہ طور پر امریکی حکام کے حوالے کیا۔

سابق فوجی آمر پرویز مشرف اس وقت اقتدار میں تھے جب نائن الیون کے حملوں کے بعد پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا اتحادی بنا۔ پرویز مشرف حکومت نے درجنوں مشتبہ افراد کو گرفتار کیا اور انہیں مختلف ملکوں کے حوالے کیا، جن میں امریکہ بھی شامل ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان