سائنس دانوں کو امید ہے کہ خلا میں انسانی اعضا کی نشوونما اور انہیں زمین پر واپس لا کر جگر کی پیوند کاری میں انقلاب لایا جا سکتا ہے۔
نئی تحقیق کے تحت بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر تجربات کیے جا رہے ہیں تاکہ ’انسانی جگر کے ٹشوز کی خود ساختہ نشوونما‘ کی جانچ کی جا سکے تاکہ انہیں طبی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ 1,200 میل کی اونچائی پر جہاں بین الاقوامی خلائی سٹیشن زمین کے نچلے مدار میں تیرتا ہے، وہاں پائی جانے والی مائیکرو گریویٹی، ٹشوز کی انجینیئرنگ کے ساتھ پیش آنے والے ایسے کچھ مسائل کو حل کر سکتی ہے، جن کا ہمیں زمین پر سامنا ہوتا ہے۔
نیا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ سچ ہے اور اس بڑھتے ہوئے عمل کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ ٹشوز کو زمین پر واپس لانے کے طریقوں پر کام کیا جا رہا ہے۔
تحقیق کی قیادت کرنے والی سائنس دان ڈاکٹر ٹیمی ٹی چانگ نے کہا: ’ہمارے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ مائیکروگرویٹی والے حالات جگر کے ٹشوز کی نشوونما میں زمین کے مقابلے میں بہتر تفریق اور فعالیت کے ساتھ کام کرتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے بقول: ’یہ جگر کے ٹشو امپلانٹس کو قابل عمل بنانے کی طرف ایک اہم قدم ہے جو روایتی جگر کی پیوند کاری کے متبادل یا اضافی قابلیت کے طور پر کام کر سکتا ہے۔‘
اگر ان ٹشوز کی خلا میں نشوونما ممکن ہوئی تو انہیں استعمال کی غرض سے زمین پر واپس لانے کے لیے محفوظ طریقے سے رکھنے کی ضرورت ہوگی۔ محققین کو امید ہے کہ وہ آئیسوکورک سپر کولنگ نامی تکنیک کی جانچ کریں گے جو مواد کو فریزنگ پوائنٹ سے کم ٹھنڈا تو رکھتی ہے لیکن انہیں نقصان نہیں پہنچاتی۔
اگر یہ تکنیک کامیاب ہو گئی تو اس سے ٹشوز کو زیادہ دیر تک زندہ رکھنے میں مدد ملے گی اور سائنس دانوں کو امید ہے کہ اسے پورے اعضا کے ساتھ استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر چانگ نے ایک بیان میں کہا: ’ہمارا مقصد ٹشوز کے تحفظ کی محفوظ تکنیکوں کو تیار کرنا ہے جو ہمیں فعال ٹشوز کو زمین پر واپس لانے میں مدد دے جہاں انہیں معتدد بائیومیڈیکل ایپلی کیشنز کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، جس میں بیماری کی ماڈلنگ، ڈرگ ٹیسٹنگ اور آخر میں پیوند کاری شامل ہے۔‘
© The Independent